کراچی/حیدرآباد/کوئٹہ (اسٹاف رپورٹر+ خبرایجنسیاں)کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ بھر میں بارشوں نے تباہی مچادی ۔ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے صوبے میں رین ایمرجنسی نافذ کردی۔ تفصیلات کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں مون سون کے چھٹے اسپیل کے دوسرے دن تیز ہواؤں کے ساتھ موسلا دھار بارش سے نظام زندگی درہم برہم ہوگیا اور مختلف حادثات میں 4 افراد جاں بحق ہو گئے ۔سندھ کے کئی علاقوں میں گزشتہ روز سے ہی مسلسل بارش جاری رہی جس کے باعث حیدرآباد، میر پور خاص، ٹنڈو محمد خان، سجاول میں پانی گھروں میں داخل ہوگیا، عمر کوٹ میں کپاس اور مرچوں کی فصل کو نقصان پہنچا۔کراچی میں شادمان، لانڈھی، کورنگی، ملیر، ڈیفنس، عائشہ منزل، ناظم آباد، گلشن اقبال، لیاری سمیت متعدد علاقوں میں سڑکیں دریا کے مناظر پیش کرنے لگیں شارع فیصل پر گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بند ہونے سے لوگ شدید اذیت کا شکار ہوئے۔کئی علاقوں میں نالے اور گٹر ابل پڑے جبکہ ناگن، پی ای ایس ایچ، نرسری اور ملحقہ علاقوں میں نالے کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا
جس کے باعث مکینوں کا قیمتی سامان خراب ہوگیا ، گلیوں اور سڑکوں پر کھڑی گاڑیاں بھی پانی میں ڈوب گئیں۔صدر، ٹاور، کے اطراف کے علاقوں میں دفاتر اور دکانوں میں بھی پانی بھر گیا ،نارتھ کراچی اور اطراف کے علاقوں میں 3 سے 4 فٹ پانی کھڑا ہے ۔سرجانی ٹاؤن کے متاثرہ علاقوں سے 4 روز بعد بھی پانی نہیں نکالا جا سکا ہے جس کے باعث 80 فیصد سے زائد آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوچکی ہے، شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تختوں اورڈرمز کے ذریعے کشتیاں بنا ئی ہوئی ہیں۔ملیر ندی میں طغیانی کے باعث کورنگی کازوے روڈ بند ہوگیاجب کہ ملیر تھڈو ڈیم میں شگاف پڑگیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے بڑے اسپتالوں آغا خان، ضیاالدین (ناظم آباد) میں بھی بارش کا پانی داخل ہوگیا جس کی وجہ سے مریضوں اور ان کے تیمارداروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔سندھ سیکرٹریٹ کے بیرک نمبر 20 میں واقع احتساب عدالت کی چھتیں ٹپکنا شروع ہوگئیں، جس کی وجہ سے سائلین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ایس ایس پی ایسٹ ساجد امیر سدوزئی نے بتایا کہ گلستان جوہر منور چورنگی کے قریب پہاڑی تودہ گرنے سے متعدد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں تباہ ہوگئیں۔انہوں نے کہا کہ حادثے میں کسی کے زخمی یا جاں بحق ہونے کی اطلاعات نہیں ہیں۔مشرف کالونی 500 کواٹر کے قریب پانی کے جوہڑ میں گر کر 13 سالہ بچہ جاں بحق ہوگیا، ایدھی کے رضاکارو ں نے لاش نکال کر مرشد اسپتال میں منتقل کردی۔ایک اور حادثے میں پاک کالونی کے محلہ ہارون آباد میں کرنٹ لگنے سے 17 سالہ محمد آصف جاں بحق ہوگیا۔دریں اثنا بارش کے باعث گھر کی دیوار گرنے سے 10 سالہ بچہ جاں بحق جبکہ اس کی والدہ زخمی ہوگئیں۔پولیس حکام کے مطابق زخمی خاتون کو علاج کے لیے جناح اسپتال منتقل کردیا گیا جب کہ بچے کی لاش بھی اسپتال پہنچا دی گئی۔شہر کے اہم بازار، مارکیٹیں اور تجارتی مراکز بند اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ بھی نہ ہونے کے برابر رہی۔ اس ضمن میں آل کراچی تاجر اتحاد کے صدر عتیق میر نے بتایاکہ موسلادھار بارش سے شہر کے تاجروں کو4ارب روپیسے زائد کا کاروباری نقصان پہنچا ہے۔کراچی میں بارش کے آغاز کے ساتھ ہی حسب روایت کے الیکٹرک کے 700فیڈرز ٹرپ کرگئے ،بیشتر علاقوں میں بجلی بند ہوگئی ۔ترجمان کے الیکٹرک نے پرانا راگ الاپتے ہوئے بجلی کی طویل بندش کو حفاظتی اقدام قرار دیا ہے۔علاوہ ازیں کراچی میں اگست کے مہینے کے دوران مون سون سسٹم کے تحت بارشوں کا سابقہ 89 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں اس بار 1931ء کے بعد اگست کے مہینے میں سب سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ فیصل بیس پر رواں سال اگست میں 345 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوچکی ہے جب کہ کا سابقہ ریکارڈ 298.4 ملی میٹر بارش کا ہے۔جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ائرپورٹ پرموجود آبزرویٹری کا سابقہ ریکارڈ 262.5 ملی میٹر اور مسرور بیس کا ریکارڈ 272 ملی میٹر ہے یہ ریکارڈ بھی حالیہ بارشوں میں ٹوٹ گئے ہیں۔محکمہ موسمیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ 29 سے 30 اگست کے دوران ایک اور مون سون سسٹم سندھ میں میں بارش برسا سکتا ہے، بارش کا سبب شمال مشرقی بحیرہ عرب میں موجود ٹرف(ہوا کا جزوی کم دباؤ) کا دوبارہ سرگرم ہونا ہوگا۔ علاوہ ازیں محکمہ موسمیات نے سندھ کے ضلع دادو میں سیلاب کا انتباہ جاری کردیا۔محکمہ موسمیات نے متعلقہ محکموں سے درخواست کی کہ سیلاب سے حفاظت کے پیشگی اقدامات اٹھائے جائیں۔ادھر شدید بارشوں سے کراچی سے حیدرآباد کے درمیان مختلف مقامات پر ریلوے ٹریک بہہ گیا ہے۔ جس کے باعث اپ اور ڈاؤن دونوں ٹریکس بلاک ہوگئے ہیں اور ٹرین آپریشن معطل ہوگیا ہے۔ عوامی ایکسپریس کو کراچی، فرید ایکسپریس کو بولہاری جب کہ کراچی آنے والی رحمان بابا ایکسپریس کو بن قاسم کے مقام پر روک دیا گیا۔ٹریک کی بحالی کا کام شروع نہ ہوسکا، مسافروں کو پریشانی کا سامنا ہے۔سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ نے صوبے میں رین ایمرجنسی نافذ کردی ہے ۔ وزیرا علیٰ نے چیف سیکرٹری کو ٹیلیفون کیا اور تمام متعلقہ محکموں کی چھٹیاں منسوخ کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ادھر وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ بارش پیر کی شام سے مستقل ہو رہی ہے اور اتنی بارش میں شہر میں کافی حالات خراب ہیںلیکن اب ان مسائل کو حل کرلیں گے۔شارع فیصل پر کئی جگہ پانی کھڑا ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ شارع فیصل پر پھر بھی ٹریفک چل رہی ہے ۔دوسری جانب بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بارش کا پانی ریلے کی شکل میں حب ڈیم میں داخل ہورہا ہے جس کے باعث ڈیم میں پانی کا لیول مسلسل بڑھ رہا ہے۔ مزید پانی آنے کے بعد خطرے کے نشان پر پہنچ گیا تو اسپل وے کھول دیے جائیں گے۔ڈپٹی کمشنر لسبیلہ نے اس حوالے سے انتظامات شروع کردیے۔اسپل وے کے راستے میں موجود آبادیوں کو خالی کرنے کی ہدایات جاری کردی گئیں، آئندہ 24گھنٹوں میں خضدار اور دریجی کے علاقوں میں بارش ہوئی تو حب ڈیم بھر جانے کا قوی امکان ہے۔ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو اسپل وے کھول دیا جائے گا۔ ڈی سی لسبیلہ کا کہنا ہے کہ حب ڈیم میں میں مزید 6فٹ پانی ذخیرہ ہوسکتا ہے جبکہ حب ڈیم میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ڈیم بھرنے کی صورت میں اسپل وے سے پانی کا اخراج کسی بھی وقت شروع ہوسکتا ہے۔ڈی سی لسبیلہ کا کہنا تھا کہ اسپل وے کے راستے اور نشیبی علاقوں میں رہنے والے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ محفوظ مقام کی طرف منتقل ہوجائیں تاکہ کسی بھی جانی اور مالی نقصان سے بچا جاسکے۔