قتل کا فتویٰ۔ وزیر ہوا بازی کی غیر ذمے داری

296

وفاقی وزیر شہری ہوا بازی غلام سرور نے فتوے دینے کا کام بھی شروع کر دیا۔ اپنے ایک غیر ذمے دارانہ بیان کے ذریعے وہ پاکستان کی فضائی صنعت کو تقریباً تباہ کر چکے ہیں لیکن اپنے آدمی کی ہر حال میں حمایت کے رویے نے بات یہاں تک پہنچا دی ہے کہ اب وزیر صاحب قتل کے فتوے دینے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ملک کو 35 سال تک لوٹنے والے واجب القتل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملک میں سیاسی دہشت گرد بھی موجود ہیں۔ میں ہر بکنے والے کا دشمن ہوں۔ انہوں نے خود کو اور اپنے خاندان کو بھی احتساب کے لیے پیش کیا۔ ایسے بیانات پر کون خاموش رہتا ہے۔ مریم اورنگزیب نے یہ ردعمل دیا کہ مافیا حکومت میں بیٹھی ہے۔ پی پی کے نیر بخاری نے بھی درست سوال اٹھایا کہ اس اصول کے تحت تو یہ فتویٰ غلام سرور پر بھی لاگو ہوتا ہے، وہ خود پیپلز پارٹی کا حصہ تھے۔ غلام سرور صاحب نے جو کام کیا ہے اگر یہ کام کوئی عالم دین قرآن و سنت کی روشنی میں کرتا تو حکومت اور میڈیا اتنا طوفان اٹھا دیتا کہ اللہ کی پناہ۔ اگرچہ قرآن کے صریح حکم کی بات بھی کی گئی ہوتی۔ اب اگر حضرت مفتی غلام سرور صاحب کے فتوے کی روشنی میں کوئی شخص کسی لٹیرے کو قتل کر دے تو اس قتل کا ذمے دار کون ہوگا۔ غلام سرور صاحب کے فتوے کے مطابق دیکھا جائے تو موجودہ کابینہ میں ایک دو لوگ ہی بچیں گے۔ سارے واجب القتل قرار پائیں گے۔ 35 برس سے جو لوگ ملک کو لوٹ رہے تھے ان کا اشارہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طرف تھا۔ لیکن وہ خود پیپلز پارٹی سے آئے ہیں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ڈاکٹر بابر اعوان، شیخ رشید، فواد چودھری، ق لیگ، اور بہت سارے ارکان اسمبلی پی ٹی آئی کی صفوں میں شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گزشتہ 35 برسوں کے دوران ملک لوٹنے والے حکمرانوں کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ ساری خرابی یہی ہے جس کی نشاندہی امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق بھی کر چکے ہیں کہ تیرا چور خراب میرا چور اچھا… غلام سرور صاحب نے قتل کا فتویٰ تو دے دیا کوئی ہے جو ان سے اس پر باز پرس کرے۔ کیا پی ٹی آئی کی حکومت میں کوئی ذمے داری محسوس نہیں کرتا کہ اس قسم کی باتوں پر گرفت کی جائے اور اگر اس بیان کی حمایت میں بھی پارٹی ڈٹ کر کھڑی ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اپنی کابینہ سے اس فتوے پر عمل شروع کر دے۔