دل خوشامد سے ہر اک شخص کا کیا راضی ہے

391

وزیر اعظم عمران خان نے معروف صحافی کامران خان کا ایک گھنٹہ چالیس منٹ جو طویل انٹرویو لیا ہے اس میں کامران خان نے کھل کر وزیراعظم کے سوالات کے جوابات دیے۔ وزیراعظم عمران خان جب کامران خان کا انٹرویو کرنے کے لیے واش روم سے باہر تشریف لائے تو ان کے گیلے کپڑوں سے واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ وہ وضو کرکے آئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانے کا ویژن کتنا کلیئر ہے۔ انٹرویو شروع ہونے سے پہلے کامران خان نے وزیراعظم کو سوالات کی ایک لمبی لسٹ دیتے ہوئے کہا اس میں سے جو چاہیں جو مرضی آئے پوچھیں۔ یقینا یہ ایک پلانٹڈ انٹرویو نہیں تھا۔ کامران خان نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ پورا ملک دوسال سے تبدیلی کے مزے لوٹ رہا ہے۔ عوام کو بڑا مزہ آرہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی کامیابیوں کو جدوجہد کا نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے نو سال کی عمر میں ٹیسٹ کرکٹر بننے کا فیصلہ کیا اس کے لیے جدوجہد کی اور کرکٹر بن گئے۔ کرکٹ میں اوپر آنے، کپتان بننے کے لیے جدوجہد کی اور کپتان بن گئے۔ اسپتال بنانے کے لیے جدوجہد کی اور اسپتال بنا لیا۔ پھر سیاست میں آئے وہ ان کی سب سے بڑی جدوجہد تھی۔ دو پارٹی سسٹم میں ان کی پارٹی گرتی پڑتی رہی۔ دو مرتبہ الیکشن میں ناکامی ہوئی۔ تیسرے الیکشن میں کامیابی ملی۔ جب مسلسل جدوجہد کی جاتی ہے تب آپ کو جدوجہد کرنا آجاتی ہے۔ آپ برے وقت سے گھبراتے نہیں ہیں۔ کتنے ہی لوگ سیاست میں آئے اصغر خان سیاست میں آئے، اے کیو خان آئے لیکن وہ جدوجہد نہیں کرسکے۔۔۔ وزیراعظم نے اپنی اس مدح سرائی سے انٹرویو آغاز کیا۔ یقینا کامیابیوں کے حصول میں جدوجہد کا بڑا دخل ہوتا ہے لیکن کیا صرف جدوجہد کامیابی کی واحد کلید ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو ہٹانے اور ان پر دست شفقت رکھنے کا فیصلہ نہ کرتی تو کیا وہ وزیراعظم بن سکتے تھے۔ گزشتہ دوبرس سے بدترین کارکردگی کے باوجود اگر وہ وزیراعظم کی کرسی پرموجود ہیںتو کیا یہ ان کی صلاحیتوں کا نتیجہ ہے۔ اگر آج اسٹیبلشمنٹ ان پر سے ہاتھ ہٹالے تو کیا وہ برسراقتدار رہ سکتے ہیں؟ مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد ضروری، لیکن کامیابی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطا ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت۔ خود پسندی ایک دو دھاری تلوار ہوتی ہے جو اپنی شخصیت کو خاص سمجھنے پر مجبور کردیتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی دوسالہ کارکردگی کی سب سے بڑی کامیابی ملک کا قبلہ تبدیل کرکے اسے مدینے کی فلاحی ریاست بنانے کی سمت پیش رفت کو قرار دیا۔ انہوں نے قرار دیا کہ مدینے کی ریاست ایک بڑا وژن ہے۔ بادشاہت کی مثال دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بادشاہت میں پیسہ اور اقتدار اوپر کے لوگوں کے پاس رہتا تھا نیچے لوگ غریب رہ جاتے تھے جب دنیا میں جمہوریت آئی تو آہستہ آہستہ پیسہ نیچے جانا شروع ہوگیا۔ عوام کے پاس۔ عوام اوپر اٹھنا شروع ہوگئے۔ مدینہ کی ریاست ایک منفرد ریاست تھی نبیؐ کی ترجیح نیچے کے طبقے کو اوپر اٹھانا تھی۔ معذوروں بیوائوں یتیموں کو ریاست نے اپنی ترجیح بنائی یہ پہلی مرتبہ تھا۔ وزیراعظم کی یہ باتیں ابہام در ابہام کی بدترین مثالیں ہیں۔انہوں نے قرار دیا کے جمہوریت نے غریب طبقے کو اوپر اٹھایا۔ جمہوریت میں پیسہ غریب طبقے کے پاس آنا شروع ہوا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت میں پیسہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گیا ہے۔ امریکا، یورپ سے لے کر بھارت تک جمہوریت میں چند خاندان ہیں چند سرمایہ دار ملک کی بیش تر دولت کے مالک ہیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور دنیا کی سب سے بڑی غربت بھی۔ ستر برس سے زائد گزر جانے کے باوجود آج بھی عوام کی اکثریت گنجان آباد جھونپڑیوں میں سڑ گل رہی ہے۔ جہاں صاف پانی یا صحت کی سہولتوں کا کوئی تصور نہیں۔ فرانس میںتقریباً ایک برس ہونے کو آرہا ہے یلو شرٹس مہنگائی، بڑھتے ہوئے ٹیکسوں اور دولت کے ارتکاز کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ اگر سختی سے کچلا نہ جاتا تو occupy wall street کی مہم امریکا سے لے کر پورے یورپ تک پھیل جاتی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جن کا نعرہ تھا ’’ہم ننانوے فی صد ہیں‘‘۔ غربت کا مقابلہ کرنا تو درکنار جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام تو کورونا کا مقابلہ نہیں کرسکا۔ جہاں تک رسالت مآب محمدؐ کی ترجیح کی بات ہے تو نہ صرف آپؐ بلکہ تمام انبیا کی ترجیح اللہ کے دین کا نفاذ تھا، اسلام کا نفاذ تھا۔ غربت کا خاتمہ اس نظام کے ثمرات ہیں جو اسلام کے نفاذ کی صورت میں خود بخود ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا ابہام در ابہام یہ کہ وہ جمہوریت اور نبی کریمؐ سے ہوتے ہوئے اگلی ہی سانس میں چین چلے گئے جہاں بدترین آمریت ہے۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے وہ چین کا ماڈل اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
انٹرویو کے اگلے مرحلے میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں اشرافیہ کا قبضہ (Elite Capture) ہے جہاں نظام کا فائدہ اٹھا کر ایک چھوٹی اقلیت کو سہولتوں تک رسائی حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکومت میں بھی اشرافیہ کا ہی غلبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اشرافیہ اور مافیاز جو پچھلی حکومتوں میں شامل تھیں وہ پہلے دن ہی سے ان کی حکومت کا حصہ ہیں اور عوام کو بجلی، گیس، آٹا، چینی اور دیگر اشیاء ضرورت کے بحرانوں اور ان کی قیمتوں میں اضافہ کرکے لوٹ رہی ہیں۔ ان کی کابینہ میں چند اراکین کو چھوڑ کر باقی سب کا تعلق اشرافیہ سے ہے۔
کامران خان جس طرح وزیراعظم کو مکھن لگارہے تھے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایک خوشامد پسند آدمی ہیں۔ خوشامد انہیں اچھی لگتی ہے۔ سرسید احمد خان کہا کرتے تھے ’’دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے۔ اول اول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی آپ خوشامد کرتے ہیں اور اپنی ہر ایک چیز کو اچھا سمجھتے ہیں اور آپ ہی آپ اپنی خوشامد کرکے اپنے دل کو خوش کرتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ اوروں کی خوشامد ہم پر اثر کرنے لگتی ہے۔ ہماری عقل خوشامدیوں کے مکر وفریب سے اندھی ہوجاتی ہے۔ اگر ہر شخص کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ خوشامد کا شوق کیسے نالائق اور کمینہ خصلتوں سے پیدا ہوتا ہے تو یقینا خوشامد کی خواہش کرنے والا شخص بھی ویسا ہی نالائق، کمینہ متصور ہونے لگے گا‘‘۔
پاکستان میں حکومت سول ہو یا فوجی ان سب کا طریق حکومت کچھ بھی رہا ہو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت سے کوئی بھی باہر نہیں نکلا۔ سرمایہ کی طاقت کا اظہار جمہوریت کے ذریعے ہو یا آمریت کے ایسے ماہروں دانشوروں اور صحافیوں کی شدید ضرورت رہی ہے جو خوشامد کے ماہر ہوں۔ خوشامد کا ماہر ہر دور میں سرخرو رہتا ہے۔ خوشامد کی انوسٹمنٹ بہت کم ضائع جاتی ہے۔ یہ نسخہ ہر شعبہ حیات میں استعمال ہوتا ہے۔ اور شاید ہی کبھی منفی اور نقصان دہ ثابت ہوا ہو۔ لیکن اس تیر بہدف نسخے کا استعمال ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے نرم وگداز الفاظ میں لپٹی ہوئے جھوٹ اور کھلی کھلی بے حمیتی کا ہونا ضروری ہے۔ اس فن کے ماہرین کا یہ پختہ یقین ہے کہ فتح وکامرانی کا کوئی بدل نہیں۔ اقتدار تک پہنچنے کے لیے خضر کی لگائی ہوئی سیڑھیاں چڑھنی ہیں یا شیطان کی، یہ مسئلہ نہیں۔ پرانے وقتوں میں قصیدہ گو کو نہ جانے کیا کیا خطاب عطا کیے جاتے تھے اب معروف ٹی وی چینلز پر اینکر پرسن بنادیا جاتا ہے۔
دل خوشامد سے ہر اک شخص کا کیا راضی ہے
آدمی جن پری وبھوت بلا راضی ہے
بھائی فرزند بھی خوش باپ چچا راضی ہے
شاد مسرورغنی شاہ وگداراضی ہے