ایمرجنسی کا عوام کو کیا فائدہ

256

منگل کو ایک بار پھر کراچی میں تیز بارش ہوئی اور دو گھنٹے میں پورا کراچی ڈوب چلا صرف کراچی نہیں حیدرآباد سمیت سندھ کے کئی شہر زیر آب آگئے، فصلیں خراب ہو گئیں، ریلوے ٹریک بہہ گیا، کراچی حیدرآباد ٹرین سروس معطل ہو گئی۔ یہ سب کچھ این ڈی ایم اے اور حکومت سندھ کی جانب سے سیکڑوں نالے صاف کرنے کے دعوئوں کے باوجود ہوا ہے۔ حکومت سندھ نے وہی کام کیا جو پاکستان میں حکومتیں کرتی ہیں یعنی فوری طور پر رین ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ اس ایمرجنسی کے تحت کچھ کیمپ لگیں گے، کچھ لوگوں کی ڈیوٹیاں لگائی جائیں گی، کچھ کی چھٹیاں منسوخ کی جائیں گی۔ لیکن دو دن میں تقریباً چار ارب روپے کے نقصان کا ازالہ ہونے کی کوئی خبر نہیں۔ حالت یہ ہے کہ کراچی و حیدرآباد کے کئی علاقوں میں لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہو گیا، مسجدیں اور اسپتال بھی نہیں بچے، تودے گرنے سے گاڑیاں تباہ ہو گئیں، تباہی کی کیفیت یہ ہے کہ پانی نشیبی علاقوں، کچی بستیوں اور پوش علاقوں کے مکانات میں گھس گیا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب وفاق، سندھ اور بلدیہ کراچی کی مشترکہ کمیٹی کراچی کو ماڈرن سٹی بنانے کی باتیں کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے شہر کو ماڈرن سٹی بنانے کے لیے 17 کھرب روپے کی بات کی ہے۔ اگر یہ رقم فراہم کرنے کا کام آج شروع ہو جائے تو منصوبہ بنانے، اس کی فیزبلٹی بننے اور رقم کی فراہمی تک حکومتوں کی مدت پوری ہو جائے گی بلکہ اگلی حکومت بھی مدت پوری کر چکی ہو گی۔ تو کراچی اور سندھ کو کیا ملے گا۔ یہ سب باتیں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔ اہل کراچی کو مون سون میں بارش کی تباہ کاریوں سے ریلیف کی ضرورت تھی 15 سالہ منصوبے کی نہیں۔ یہ 15 سالہ منصوبہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے گزشتہ 36 برس کی حکمرانی میں کیوں نہیں بنایا۔ ایم کیو ایم نے اپنے 35 سالہ دور حکمرانی میں کراچی کے لیے بڑا منصوبہ کیوں نہیں بنایا۔ محکمۂ موسمیات کی رپورٹس کے مطابق اب سندھ میں بارش کا شور ٹوٹ رہا ہے یعنی اب اتنی شدید بارش نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نالوں کی صفائی، بہتے گٹر، ٹوٹی سڑکوں کا معاملہ جوں کا توں رہ جائے گا۔ پھر اگلی بارش کے سر پر آنے کے بعد ایمرجنسی نافذ کی جائے گی۔ رین ایمرجنسی کے نفاذ سے کسی کے گھر سے پانی نکلتا ہے نہ گٹر ٹھیک ہوتے ہیں۔ ایمرجنسی کے لیے بھاری فنڈز جاری ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر کچھ ٹینٹ لگا کر بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں۔ ان کی تصاویر شائع ہوتی ہیں لیکن اس ایمرجنسی کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچا۔ عام طور پر حکمران ایسے مواقع کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کچھ شہروں کو آفت زدہ قرار دیتے ہیں۔ آفت زدہ قرار دینے سے عوام کو کچھ نہیں ملتا۔ کچھ لوگوں کے ٹیکس معاف ہو جاتے ہیں۔ کسی کے واجبات معاف کر دیے جاتے ہیں۔ عوام اب صرف وفاق، صوبے اور متحدہ کی کمیٹی پر توجہ مرکوز رکھیں۔ اس نے جو وعدے کیے ہیں انہیں بار بار یاد دلائے جائیں تاکہ عوام کو بھی یاد رہے کہ ان سے کیا کیا وعدے کیے گئے تھے۔