یوں ہی کوئی مل گئی تھی

651

تیز بارش کے ساتھ ہوا بھی چل رہی تھی۔ آفس سے نکلا تو سیاہ بادل ڈٹے کھڑے تھے تاہم امید تھی کہ بارش شروع ہونے سے پہلے ہی گھر پہنچ جائوں گا۔ بیچ راستے ہی میں تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ طوفانی بارش۔ موٹر سائیکل نے آدھے راستے تو ساتھ دیا، جب سڑکوں پر اتنا پانی ہوگیا کہ وہیل ڈوب گئے تو موٹر سائیکل بھی بند ہوگئی۔ میں نے موٹر سائیکل ایک درخت کے نیچے کھڑی کی۔ یہاں سڑک کے مقابلے میں پانی کم تھا۔ پلگ کھول کر صاف کیا۔ دوبارہ لگا کر ککیں مارنا شروع کیں لیکن موٹر سائیکل اسٹارٹ نہیں ہوئی۔ بارش رکنے کا نام نہیں لی رہی تھی۔ میں بارش میں بری طرح بھیگ گیا تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بارش رک بھی گئی تو اس دریا کے پار اتر کر گھر کیسے پہنچوں گا جو سڑکوں پر رواں تھا۔ بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اتنے میں سڑک پر ایک لمبی کار آکر رکی۔ کار میں سے باوردی ڈرائیور نکلا اور بارش میں چلتا ہوا میرے پاس آیا اور کہا ’’سر آپ کو میڈم بلارہی ہیں‘‘ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کوئی مجھے اس لب و لہجے میں سر کہہ کر مخاطب کرے گا۔ میں نے حیرت سے ڈرائیور کو دیکھا اور پھر کار کی طرف نظر کی۔ کار میں ایک چاند کا ٹکڑا بیٹھی تھی۔ نوجوان، حسین اور صحت مند۔
کار تک پہنچا تو اس نے کھڑکی سے سر باہر نکالا اور بولی ’’اس تیزبارش میں آپ کیا کررہے ہیں‘‘۔ ’’جی! میں! آفس سے گھر جارہا تھا کہ بارش نے آلیا۔ موٹر سائیکل بند ہوگئی ہے۔ بارش رکنے کا انتظار کررہا ہوں‘‘۔ ’’آئیے میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جائیے‘‘ دوشیزہ نے کہا۔ ڈرائیور نے آگے بڑھ کر کار کی اگلی نشست کا دروازہ کھول دیا۔ میں نے موٹر سائیکل کی طرف دیکھا۔ ڈرائیور بولا ’’سر! اس کی فکر نہ کریں۔ پہنچ جائے گی‘‘۔ کار میں بیٹھ کر جسم میں سوئیوں کی طرح اترتی ہوئی تیز بارش سے نجات ملی تو کافی سکون ہوا۔ تھوڑی دیر میں کار ایک محل نما بنگلے کے اندر جا کر رکی۔ ایک باوردی ملازم نے آگے بڑھ کر کار کا دروازہ کھولا۔ پہلے دوشیزہ اتری اور پھر میں۔ ہم گھر کے اندر داخل ہوئے۔ دوشیزہ نے ملازم سے کہا ’’صاحب کو لے جائو۔ ان کو دوسرے کپڑے دو۔ اور یہ کپڑے دوبارہ واش اور استری کردو‘‘۔ ملازم مجھے نہانے کے لیے لے گیا۔ نہ جانے کتنی اقسام کے شیمپو، طرح طرح کے پرفیومز اور باڈی واش رکھے ہوئے تھے۔ میں نے ایک شیمپو کی بوتل اور صابن اٹھایا اور شاور کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ نہا کر طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی تھی۔ باہر آکر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ایک دوسرا ملازم آگیا اور ادب سے کہا ’’سر! میڈم کھانے کی ٹیبل پر آپ کا انتظار کررہی ہیں‘‘۔
کھانے کی میز طرح طرح کے کھانوں سے سجی ہوئی تھی۔ کھانوں سے خوشبوئوں کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ کھانے دیکھ کر بھوک کا احساس دوبارہ بیدار ہوگیا۔ معدے سے صدا آئی ’’تمام تکلفات ایک طرف رکھ کر کھانے پر ٹوٹ پڑو۔ ہم ابھی یہ سوچ رہے تھے کہ ایک ملازم نے سوپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’سر! سوپ لیجیے‘‘ کھانا کھاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیا چکر ہے۔ کیا قسمت اس طرح بھی مہربان ہوتی ہے۔ ہم اس مہربان دوشیزہ کو بالتفصیل دیکھنا چاہتے تھے لیکن وہ میز کے دوسرے سرے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ کھانے کے بعد اس نے ملازم سے کہا ’’صاحب کو ان کے کمرے میں لے جائو‘‘ کمرہ کیا تھا کسی بادشاہ کی خواب گاہ معلوم ہوتا تھا۔ میں وکٹورین طرز کے بیڈ پر بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ یا اللہ! یہ کیا ہورہا ہے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ملازم نے اندر آکر اطلاع دی ’’سر تھوڑی دیر میں میڈم آپ سے ملنے کے لیے آرہی ہیں‘‘۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ جدید تراش کے چست لباس میں وہ قیامت لگ رہی تھی۔ وہ کمرے میں رکھے صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔ اس دوران میرے ذہن میں نہ جانے کیا کیا چل رہا تھا۔ فلموں میں دیکھی ہوئی ایسی کتنی ہی سچویشنز انگڑائیاں لیتی جاگ اٹھی تھیں۔ اسی دوران ہمارے کانوں میں جلترنگ بجنے لگے۔ وہ بول رہی تھی۔ ’’آپ تھک گئے ہوں گے۔ آرام کیجیے۔ میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے میں آپ کو یہاں کیوں لائی ہوں۔ آپ کے دماغ میں جو کچھ چل رہا ہے اسے جھٹک دیجیے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ پاپا آرمی میں جنرل ہیں‘‘۔ ’’ریٹائرڈ‘‘ نہ جانے کیوں میرے منہ سے ایک دم نکل گیا۔ ’’نہیں‘‘ اس کی غصہ بھری آواز سنائی دی ’’کس میں جرأت ہے کہ پاپا کو ریٹائر کرے‘‘ تاہم اگلے ہی لمحے اس نے اپنے غصے پر قابو پا لیا اور میری طرف دیکھتی ہوئی دل آویز لہجے میںبولی ’’میں آپ کو اصل بات بتاتی ہوں۔ پاپا آرمی چیف ہیں۔ میرے بچپن میں ایک نجومی نے انہیں میری شادی کے بارے میں بتایا تھا کہ اس لڑکی کی شادی ایک ایسے نوجوان سے ہوگی جو اگست کے مہینے میں تیز بارش میں ایک درخت کے نیچے کھڑا بھیگ رہا ہوگا۔ نجومی نے نوجوان کے حلیے کے بارے میں بھی کچھ باتیں بتائی تھیں۔ میں کئی سال سے اگست کی بارشوں میں کار لے کر نکل جاتی ہوں اور پورے شہر میں گھومتی ہوں۔ بارشوں میں درخت کے نیچے کھڑے لوگ تو دکھتے ہیں لیکن نجومی کے بتائے ہوئے حلیے پر کوئی پورا نہیں اترتا۔ آج آپ کو دیکھا تو میں حیران رہ گئی۔ آپ نجومی کے بتائے ہوئے حلیے کے عین مطابق تھے۔ آپ بتائیے آپ میرے ساتھ شادی پر راضی ہیں‘‘۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ’’شادی تو کیا اگر وہ مجھے اپنے بنگلے میں چوکیدار کی نوکری دے دیتی تو میری بے روزگاری اس پر بھی تیار ہوجاتی۔ میں نے اگلے ہی لمحے ہاں کردی‘‘۔ کل پاپا پنڈی سے آرہے ہیں اگر وہ آپ سے مطمئن ہوگئے تو دو تین مہینے کے بعد ہی ہماری شادی ہوجائے گی۔ آپ آرام کیجیے۔ شب بخیر۔
ایسی گہری اور میٹھی نیند شاید ہی کبھی آئی ہو اور سہانے خواب بھی۔ دن چڑھے تیز جھکڑوں کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ کھڑکی کھول کر دیکھا تو بنگلے میں بنے ہیلی پیڈ سے فوجی وردی میں ملبوس کوئی صاحب ہیلی کاپٹر سے اتر رہے تھے۔ میں سمجھ گیا یہ اس سراپا ناز کے پاپا تھے۔ ابھی میں ناشتے سے فارغ ہی ہوا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ملازم اندر داخل ہوا ’’سر آپ کو بڑے صاحب نے یاد کیا ہے۔ تیار ہوجائیے۔ گیارہ بجے آپ کی میٹنگ ہے‘‘۔ ٹھیک گیارہ بجے ہم جنرل صاحب کے سامنے تھے۔ اس سے پہلے جنرل تو ایک طرف میں نے کسی تھانیدار کا سامنا نہیں کیا تھا۔ میرے چہرے پر گھبراہٹ تھی۔ ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ’’بیٹھ جائو‘‘ جنرل صاحب نے اپنے مقابل میز کی دوسری طرف رکھی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ان کے سامنے ایک فائل رکھی تھی۔ انہوں نے فائل کھولی اور میرے کوائف بیان کرنا شروع کردیے۔ نام۔۔ ماجد، والد کا نام۔۔ خالد، تعلیم۔۔ بی اے۔ جس وقت تم درخت کے نیچے کھڑے بارش میں بھیگ رہے تھے اس سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی نااہلی کی وجہ سے تمہیں نوکری سے دھکے دے کر نکالا گیا تھا۔ میرے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا سربازار کسی نے ننگا کردیا ہو۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ جنرل صاحب نے اشارے سے منع کرتا ہوئے کہا ’’بے بی نے تمہیں شادی کے لیے پسند کرلیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تم ہمارے اسٹیٹس کے مطابق نہیں ہو۔ اسٹیٹس کے مطابق لانے کے لیے بہت سوچ سمجھ کر تمہارے لیے ایک شاندار ملازمت کا بندوبست کیا ہے۔ یہ بتائو مینجمنٹ کے بارے میں کچھ جانتے ہو، بیوروکریسی سے کیسے نمٹا جاتا ہے کچھ پتا ہے، عہدیداروں کے تقرر اور تبادلے کیسے کیے جاتے ہیں کچھ آگہی ہے، ترقیاتی منصوبوں کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے، کچھ معلوم ہے، ترقیاتی بجٹ کی کس طرح بندر بانٹ کی جاتی ہے کبھی سوچا، میڈیا کا کس طرح سامنا کیا جاتا ہے؟ جنرل صاحب کی باتیں ہمارے سر کے اوپر سے گزر رہی تھی۔ ہرسوال پر ہمارا جواب ’’نہیں‘‘ تھا۔ تنگ آکر جنرل صاحب نے پو چھا ’’اچھا یہ بتائو اگر ہر طرف سے تمہیں احکامات دیے جارہے ہوں تو کیا تم سب پر عمل کرسکو گے‘‘۔ میں نے خوشی خوشی جنرل صاحب کی طرف دیکھا اور جوش سے کہا ’’جی سر‘‘ جنرل صاحب نے بیزاری سے میری طرف دیکھا اور بولے ’’ٹھیک ہے پھر ہم تمہیں وزیراعلیٰ پنجاب بنارہے ہیں‘‘۔