پابندِ سلاسل ہے کون؟

334

نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کل ملیر فٹبال گراؤنڈ میں رفیق تنولی (شہید) کی یاد میں منعقد یاد گار ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں نکالی جانے والی کشمیر ریلی کے بم حملے کے پسِ پردہ وہی قوتیں ہیں جو سری نگر میں کشمیریوں پر مسلسل ظلم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں۔ جن کے ہاتھوں ہزاروں کشمیری شہید کیے جا چکے ہیں اور نامعلوم ان کے ہاتھوں اب تک کتنی خواتین کی عزتیں تار تار ہو چکی ہیں۔ یاد رہے کہ جماعت ِ اسلامی کے تحت نکالی جانے والی ریلی پر بم حملے میں 30 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے اور ناظم علاقہ قائد آباد، رفیق تنولی نے جام شہادت نوش کیا تھا۔
جماعت اسلامی گزشتہ کئی دھائیوں سے کراچی میں سیاسی، سماجی، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر بین الاقوامی اور مقامی صورت حال کو بنیاد بنا کر جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالتی آئی ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم، زیادتی یا امتیازی سلوک کا مسئلہ یا مقامی سطح پر کسی بھی قسم کی کوئی بے چینی پائی جاتی ہو تو جماعت اسلامی نے اس کے خلاف آواز اٹھانے میں کبھی کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ جماعت نے ہمیشہ اہم اور سلگتے ہوئے اشوز پر پاکستان کے ہر شہر میں جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے عوام میں آگاہی مہم چلائی اور عوام کے سامنے ملکی و بین الاقوامی صورت حال کو جس حد تک بھی ممکن ہوا رکھا، تاکہ لوگوں کو ہر قسم کی مشکلات اور اشوز سے باخبر رکھا جا سکے۔ کراچی میں بھی ہر اہم اشو پر جماعت اسلامی نے بڑے بڑے جلسے، جلوس اور ریلیاں نہایت کامیابی اور امن و امان کے ساتھ نکالیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس کے کسی بھی جلسے یا جلوس پر حملہ ہوا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب کشمیر وحشت ناک الاؤ میں بھسم کیا جا رہا ہو اور وہاں بھارت نے عملاً ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رکھے ہوں تو ان سے اظہار یک جہتی پر نکالی جانے والی ریلی پر حملہ کیا گیا؟۔ یہ نہ صرف ایک سنجیدہ اور غور طلب بات ہے بلکہ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس کے ڈانڈے اْن ہی ظالموں سے ملتے ہیں جو کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم و جبر کی انتہا کیے ہوئے ہیں۔
بات صرف ریلی پر حملے کی نہیں بلکہ ایک عظیم مقصد کی مخالفت کی بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیری ایک تو پاکستان سے محبت رکھتے ہیں بلکہ وہ بھارت کے خلاف علم بغاوت بھی بلند کر چکے ہیں۔ وہاں کی واضح اکثریت نہ صرف بھارت سے علیحدگی چاہتی ہے بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے متنی بھی ہیں۔ لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں بھی ان
کا یہ عالم ہے کہ جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ پاکستانی پرچم لہرا کر اس بات کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار ویسے بھی ہر پاکستانی پر فرض ہوجاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی کشمیر ہمیشہ متنازع علاقہ ہی سمجھا جاتا ہے اور کشمیریوں کو اب تک یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ از خود کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ایسے میں کسی ایسی ریلی پر حملہ ہونا جو مظلوم کشمیریوں کے لیے صدائے حق و صداقت بلند کرنا چاہتی ہو تو یہ حملہ صرف جماعت اسلامی کی پْر ہجوم ریلی پر نہیں بلکہ یہ ایک عظیم مقصد پر ایک کاری وار بھی ہے۔ یہاں لیاقت بلوچ اور ریلی کے دیگر مقررین حکومت سے یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ جس حملے کے ڈانڈے بھارتی ایجنٹوں سے جاکر ملتے ہوں، جو وہی کردار ادا کر رہے ہوں جو بھارتی فوج مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کر رہی ہے تو ان کے خلاف اب تک کوئی پیش رفت کیوں نہ ہو سکی اور ریلی پر حملہ کرنے والے سفاک قاتل ابھی تک آزادی کے ساتھ پاکستان میں کیوں گھوم پھر رہے ہیں؟۔
جماعتِ اسلامی کے اکابرین کا یہ سوال اپنی جگہ لیکن کیا کوئی اس سوال کا جواب رکھتا ہے کہ پاکستان میں کوئی ایک ’’وحشی درندہ‘‘ بھی ایسا ہے جو پابند سلاسل نظر آتا ہو؟۔ کیا حافظین کے قاتل اندر ہیں، کیا سانحہ ماڈل ٹاون کے سفاکین گرفتار ہیں، کیا ساہیوال کے وحشی پنجروں میں بند ہیں، کیا کراچی کے 50 ہزار سے زیادہ شہیدوں کے قاتل اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں، کیا سانحہ بلدیہ فیکٹری کی 3 سو، سوختہ لاشوں کو انصاف مل چکا، کیا ہزاروں لاپتا کرکے مردہ حالتوں میں پائے جانے والے قاتلوں کا کوئی علم ہے، کیا راؤ انوار ملک سے باہر داد عیش وصول کرتا ہوا نظر نہیں آتا، کیا لال مسجد اور مدرسہ حفصہ میں مرد زن کو بھسم کرنے والا زندہ و سلامت نہیں اور کیا ہاتھ پاؤں بندھے ایک بلوچی نوجوان کو آٹھ گولیاں مار کر ’’اتفاق‘‘ قرار دینے والے شرمسار دکھائی دیتے ہیں؟۔ ایسے ہی ایک دو نہیں، ہزاروں وحشیانہ کارروائی کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ ان سب کو شاید اس لیے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ سب وحشی درندے کسی ایسے آئین و قانون کی محافظت میں ہیں جن کو پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی 44 کروڑ گناہگار آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں کوئی ایک تنولی نہیں جس کا رونا رویا جائے یہاں 22 کروڑ کے 22 کروڑ ’’تنولی‘‘ اپنی اپنی باری کے منظر ہیں کہ جانے کب کون کس ’’اتفاق‘‘ کی زد میں آجائے۔
جس ملک میں عتیقہ اوڈھو کے پاس سے شراب کی دو بوتلوں کے برآمد ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ 9 برس لے لیا کرتا ہو وہاں کسی ’’نامعلوم‘‘ قاتل کا پتا لگا لیا جانا قیامت سے پہلے کیسے ممکن ہے۔ اللہ ہم سب کو حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔