عمران خان کا اعتراف ناکامی

521

وزیراعظم پاکستان عمران خان نیازی نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ملک بھر کے سرکاری دفاتر کی نگرانی پی ٹی آئی ٹائیگر فورس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک اجلاس میں طے پایا ہے کہ ٹائیگر فورس عوامی مقامات، تعلیمی اداروں، تھانہ کچہری، لینڈ ریکارڈ، بجلی چوری، عوامی شکایات اور سروسز کی فراہمی پر نظر رکھے گی۔ مزید برآں ٹائیگر فورس کی رکنیت کالجز اور یونیورسٹیز تک لے جانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق نوجوان مقامی سطح پر گورننس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو بھی مانیٹر کریں گے۔ دو سالہ کارکردگی میں ہر شعبے میں اپنے وعدوں کو پورا نہ کرنے کے باوجود وزیراعظم بہت پرجوش ہیں اور ملک کا نظام اپنی پارٹی کی ٹائیگر فورس کے حوالے کرنے پر تیار ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ کب کہاں اور کس کے مشورے سے کیا گیا۔ وزیراعظم نے ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا تھا تو بتایا تھا کہ یہ عالمی وبا سے نمٹنے میں رضا کارانہ خدمات انجام دے گی۔ وبا کا زور ٹوٹ گیا صحت مندوں کی تعداد بیماروں سے زیادہ ہوگئی لیکن ٹائیگر فورس کا اصل ایجنڈا اب سامنے آیا ہے۔ بظاہر بڑی خوبصورت باتیں کی گئی ہیں لیکن یہ درحقیقت پورے ملک کے نظام کی ناکامی اور حکومتی مشینری کی نااہلی کا سرکاری اعتراف ہے۔ اگر مقامی سطح پر گورننس کی بات کریں تو اس کام کے لیے حکومت کے محکمے موجود ہیں بلکہ ہر محکمے کے پاس اپنے لوگوں کی کارکردگی جانچنے کا نظام ہوتا ہے۔ گویا یہ نظام مقامی سطح پر ناکام ہوچکا ہے۔ سب سے بڑی خرابی یہ ہوگی کہ اب سرکاری دفاتر کی نگرانی حکمران سیاسی پارٹی کا رجسٹرڈ ٹائیگر کرے گا۔ یہ بیک وقت دو خرابیوں کا اعلان ہے۔ ایک یہ کہ سرکاری دفاتر میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ وہ اپنے نظام کی نگرانی کرسکیں۔ دوسرے یہ کہ اب سرکاری کام میں ٹائیگرز مداخلت کریں گے۔ عموماً کار سرکار میں مداخلت جرم تصور کیا جاتا ہے لیکن اب ٹائیگرز کو سرکاری سند مل جائے گی اور وہ ہر سرکاری دفتر میں دندناتے پھریں گے۔ اسے حکومت نگرانی کہے گی لیکن درحقیقت یہ ملکی نظام کی عملی تباہی ہوگی۔ یہی ٹائیگر فورس عوامی مقامات اور تعلیمی اداروں پر نظر رکھے گی۔ یعنی عوامی مقامات پر نظر رکھنے والے ادارے یا تو ختم کردیے جائیں گے یا ان کی ناکامی کا اعلان کیا گیا ہے۔ پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے معاملات میں بھی ٹائیگر فورس کو دخیل کیا جارہا ہے۔ فیصلے کے مطابق ٹائیگر فورس تھانہ کچہری کے معاملات پر بھی نظر رکھے گی۔ ظاہر ہے یہ نظر صرف دیکھنے کی حد تک تو نہیں رکھی جائے گی۔ بلکہ یہ باقاعدہ تھانہ کچہری میں مداخلت ہوگی کس کو پکڑنا ہے کس کو چھوڑنا ہے یہ فیصلہ اب ٹائیگر فورس کرے گی۔ وزیراعظم نے ٹائیگر فورس کے قیام کا جو مقصد بتایا تھا وہ کچھ اور ہے اور اب اس کا جو استعمال بتایا جارہا ہے وہ بڑا یوٹرن ہے۔ تھانہ، کچہری، لینڈ ریکارڈ وغیرہ کے معاملات کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس میں پیسے کا بڑا کھیل ہوتا ہے۔ اگر یہ غیر تربیت و تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو تباہی بھی ہوگی اور یہاں کرپشن کی ایک اور دکان کھل جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرکے پاکستان کے پورے نظام پر عدم اعتماد کا اعلان کیا ہے اور یہ ناکامی ان کی اپنی ناکامی بھی ہے کیونکہ 2 سال سے وہی حکمران ہیں۔ پارلیمنٹ میں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس درجنوں لوگ رکن ہیں لیکن وہاں اس پر ہنگامہ نہیں کھڑا ہوا کہ پورے ملک کا نظام سرکاری پارٹی کے منتخب لوگوں کو ٹائیگر فورس کے نام پر حوالے کیا جارہا ہے۔ یہ تو ذوالفقار علی بھٹو کی ایف ایس ایف سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ایف ایس ایف میں سیاسی بھرتیاں تھیں اور وہ سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کی جانی تھی لیکن ٹائیگر فورس تو پورے ملک کے سرکاری نظام کی ناکامی کا اعتراف ہے اور اس میں سیاسی مداخلت کا سرکاری اعلان ہے۔ یہ خرابی تو حال کی ہے لیکن عمران خان نیازی نے ملک کا مستقبل بھی تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور جن تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے الیکشن کرانے کے لیے حکومت تیار نہیں ان میں ٹائیگرز کی فورس بنائی جائے گی۔ کیا یہ فورس تعلیمی اداروں کا رہا سہا نظام تباہ نہیں کردے گی۔ وزیراعظم عمران خان نیازی کے اس ایک اعلان کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی محتسب کا ادارہ ختم، نیب ختم، پولیس ختم، عدلیہ ختم، بلدیاتی نظام ختم، لینڈ ریکارڈ میں مداخلت کا مطلب تمام رجسٹرار آفس اور افسران ختم۔ اگر وزیراعظم نہایت سنجیدہ ہیں تو یہ تمام محکمے ختم کرنے کا باضابطہ اعلان کردیں اور اپنی رضا کار فورس کو تمام ذمے داریاں دے دیں۔ اس طرح کم از کم تمام کاموں کے اچھے بُرے کی ذمے داری تو ٹائیگر فورس پر ہوگی۔ بصورت دیگر خرابی ٹائیگر فورس پیدا کرے گی اور الزام ان سرکاری اداروں کے سر ڈال دیا جائے گا۔ اب تو حد ہوگئی ہے وزیراعظم نے عملاً اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا ہے۔ اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتوں اور پارلیمنٹ کے باہر کی جماعتوں کو اس ایک نکتے پر حکومت کے خلاف تحریک شروع کردیں۔ اب تو سلیکٹرز بھی کسی اصلاح سے مایوس ہوگئے ہیں۔