بارش کی تباہ کاری میں انسانی ہاتھ بھی ہے

343

دنیا بھر میں بارش سے انسانی ہاتھ نمٹنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بارش کو روکنا اور اس کے دوران امدادی کام مشکل ہوتا ہے یہی کچھ کراچی میں بھی ہوا لیکن دنیا بھرمیں پانی کی نکاسی کا نظام ہوتا ہے اور اس نظام کو جب بھی بروئے کار لایا جاتا ہے پانی نکل جاتا ہے۔ پاکستان میں خصوصاً کراچی میں خرابی یہ ہوئی کہ ایک تو بارش توقع کے برعکس بہت زیادہ ہوئی دوسرے یہ کہ برسوں کی غفلت اور بدعنوانی نے تمام انفرا اسٹرکچر کو تباہ کر دیا۔ نالوں پر تجاوزات شہریوں نے خود نہیں قائم کیے۔ گٹر لائنوں کو شہریوں نے خراب نہیں کیا، پانی اور گٹر کی لائنیں ایک دوسرے میں صرف شہریوں کی غفلت سے نہیں ملیں بلکہ تمام کاموں میں شہری ادارے اور سرکاری افسران کی ملی بھگت رہی۔ پانی کے راستوں کو چائنا کٹنگ، غیر قانونی الاٹمنٹ اور بڑے بڑے رہائشی منصوبوں نے بھی متاثر کیا۔ بہت تیز بارش ہونا اور سیلابی کیفیت پیدا ہونا قدرتی آفت ضرور ہے لیکن اس قدرتی آفت کو عذاب بنانے کا کام ماضی کے حکمرانوں نے کیا ہے اور موجودہ حکمران اس کا تسلسل بنے رہے۔ ہر سال بارش آتی ہے تھوڑا بہت شور مچتا ہے اس کے بعد خاموشی ہو جاتی ہے لیکن شہر سے پانی کی نکاسی کا نظام بہتر نہیں بنایا جا سکا۔ ہر کام کے لیے فنڈز بھی مختص ہوتے ہیں اور رقوم جاری بھی ہو جاتی ہیں۔ سڑکیں، نالے، پل، انڈر پاس سب کا ذکر ہوتا ہے لیکن جب بھی بارش آتی ہے سارے دعوے بہہ جاتے ہیں۔انسانی ہاتھوں کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ شہر میں جگہ جگہ سیوریج لائن کو برساتی نالوں میں ملا دیا گیا جس میں بظاہر کوئی خرابی نہیں نظر آتی لیکن جوں ہی کہیں سے پانی کی نکاسی کا راستہ بند ہوتا ہے یہ نالے بہہ نکلتے ہیں کیونکہ ان کے راستوں میں نالوں پر تجاوزات بھی ہوتی ہیں پھر سڑکوں پر بہنے والا پانی گٹر کے پانی سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ گھروں میں بھی یہی پانی واپس لوٹ آتا ہے۔ ایک اور اہم خرابی پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹ ڈال کر رہایشی منصوبے بنانا بھی ہے۔ اس کی وجہ سے پانی کا بہائو متاثر ہوتا ہے باقی کام واٹر بورد، سالڈ ویسٹ، بلدیہ کراچی وغیرہ کے افسران اور عملہ کرتے ہیں۔ پھر اس کو قدرتی آفت قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قدرتی آفت کا مقابلہ کرکے اسے شکست نہیں دی جاسکتی لیکن شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے اقدامات تو درست ہونے چاہییں۔ ہمارے حکمرانوں نے یہ کام نہیں کیے۔ جمعرات کو کراچی کے لوگوں کے لیے ایک اور امتحان آیا۔ کراچی کی ہر سڑک سمندر بنی ہوئی تھی۔ ساتوں انڈر پاس بند کرنے پڑے۔ پوش علاقوں میں بھی پانی اور کچی بستیاں تو سب سے پہلے متاثر ہوتی ہیں۔ بارش اگر حد سے زیادہ ہو جائے تو دنیا کا کوئی ترقی یافتہ ملک بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ اس کا مشاہدہ تو ہوتا رہتا ہے تاہم ہر جگہ ریلیف کا نظام ہوتا ہے۔ سرکار کے وسائل عوام کے تحفظ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ حالیہ بارشوں نے دو سبق دیے ہیں کہ ترقی کے حوالے سے حکمرانوں کے دعوئوں پر کبھی یقین نہ کیا جائے ان کے دعوے ہمیشہ جھوٹے نکلتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے بغاوت پر کسی بھی وقت پکڑ ہوسکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ غفور الرحیم پوری پوری بستیاں نہیں الٹ رہا لیکن کبھی کبھی ہمیں یہ تو بتا دیا جاتا ہے کہ کوئی طاقت ہے جو سب چیزوں پر حاوی ہے۔ ترقی بھی اس کے سامنے بہہ جاتی ہے اور ٹیکنالوجی بھی بے بس ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ ملک اللہ کے بندوں کے لیے اللہ کا نظام نافذ کرنے کے وعدے پر حاصل کیا گیا تھا۔ لاکھوں لوگ یہاں آئے ہی اس لیے تھے کہ یہاں اسلام کا نظام نافذ ہو گا اور ہندوستان میں مسلمانوں کو جو آزادی حاصل نہیں ہے وہ یہاں حاصل ہوگی لیکن اس دھوکے کا کیا کیا جائے جو ان کے ساتھ قائداعظم اور قائد ملت کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کیا۔ کبھی فوجی آمریت کبھی جمہوریت کبھی سول آمریت خدا سے بغاوت کے سارے نظام آزما لیے گئے پھر بھی چاہتے ہیں کہ ہر بارش رحمت ثابت ہو۔ اللہ کا نظام ہے وہ جب چاہے رحمت کو عذاب میں تبدیل کر دے۔ ہمارے حکمرانوں اور عوام کے لیے حالیہ بارش اور ان کا بے قابو ہونا اشارہ ہیں۔ اس سے بچنے کا راستہ اجتماعی توبہ ہے۔ حکمران تو اجتماعی اور انفرادی دونوں طرح کی توبہ نہیں کرتے لیکن عوام کو یہ توبہ کرنی ہوگی۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کو ووٹ دینے اور ان کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کی غلطی سے بھی توبہ کرنی ہوگی، ورنہ سڑکوں پر ڈوبنے اور گھروں میں گٹر کے پانی کے استقبال کے لیے تیار رہیں۔