ہم نے بچپن سے سن رکھا ہے کشمیر ’’ہماری شہ رگ‘‘ ہے اور یہ بات ہمارے تجربے میں ہے کہ اگر کوئی معمولی جنگلی جانور بھی شیر کے چنگل میں آجائے تو مرتے دم تک اپنی سی یہی کوشش کرتا رہتا ہے کہ شیر کا ہاتھ اس کی شہ رگ تک نہ پہنچ سکے۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں دنیا کے انسانی جنگل میں پاکستانی نہ شیر بننا چاہتا ہے اور نہ وہ کوئی معمولی حیثیت کا مالک ہے۔ اس کے برعکس پاکستان دنیا میں ہیرے کی طرح چمکدار اور روشن ہے لیکن ہیرے کی اس خوبی سے ہر ایک واقف ہے اگر کسی کے گلے سے لگ جائے ہار بن جاتا ہے لیکن اگر حلق سے اُتر جائے تو موت بن جاتا ہے۔ اسی ملک کے ایک جنر ل کو امریکا کے مشاق اخباری نمائندوں نے بات چیت کی دعوت دی تو اس نے یہ سبق دیا۔ امریکی صحافی کے سوال کے ختم ہوتے ہی پاکستان کے آرمی چیف نے اپنی عادت کے مطابق مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ: ’’آزادی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور دنیا بھر میں جس شخص نے بھی آزادی کی قیمت لگائی تاریخ نے اس کو رہتی دنیا تک غدار قرار دیا ہے۔ میں پاکستان کے غدار کی حیثیت سے نہیں مرنا چاہتا‘‘۔ امریکا کی 20 کمپنیاں تو کجا 20 ہزار پاور کمپنیاں بھی اگر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تب بھی پاکستان ایٹمی پروگرام سے دستبردار نہیں ہوگا۔ امریکی صحافی کا سوال تھا کہ امریکا کی 20 بڑی پاور کمپنیاں پاکستان کے پاور سیکٹرز میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں تو آپ پاکستان کے لیے ایٹمی بجلی گھر کیوں بنانا چاہتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے اس بیان پر ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے امریکی صدر فورڈ نے 1997ء میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ضیا نے امریکی صحافیوں کے منہ کو تالالگا دیا ہے۔
آج ایک مرتبہ پھر پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ ’’بھول جائو اور بہت کچھ لے لو‘‘۔ کا خط موصول ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چین سے چلے تو ان کے دورے کو کامیاب قرار دیا جارہا تھا۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ چین نے کشمیر پر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ’’چین کشمیریوں‘‘ کے ساتھ ہے۔ شاہ محمود قریشی کے دورے کے فوری بعد چینی صدر سی جنگ نے پاکستانی صدر ڈاکٹر عارف علوی کے نام ایک خط لکھا ہے۔ خط کے آتے ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر حکومتی ارکان چین کے دورے کے بارے میں مزید تفصیلات بتانے اور مزید تفصیل میں جانے سے انکار کر رہے ہیں کیا اس خط کا مرکزی خیال بھی کشمیر ہے۔ لداخ اور دیگر علاقوں میں چین کی 50 سے 80 ہزار فوج گشت کررہی ہے۔ یہ ’’کشمیر کو چھوڑ دو اور بہت کچھ لے لو‘‘ کی گردان بھارت اور امریکا بھی پاکستان سے کرتے رہے ہیں اور اب بھی یہ کسی کا مطالبہ ہے تو اس میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ بات پاکستانیوں کو ہرگز ہرگز منظور نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اگر کسی دوست ملک نے کوئی مطالبہ رکھا ہے تو یہ مطالبہ اسرائیل کی فلسطین کے لیے ’’ڈیل آف دی سنیچری‘‘ سے بھی بدترین مطالبہ ہے اور اس کے مطالبے پر پاکستان کو کسی صورت عمل نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے 17 جون کے کالم میں لکھا تھا کہ: سال 2019ء کے آخر میں جب چین پوری دنیا میں ’’سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ‘‘ پر تیزی سے کام کر رہا تھا اس وقت چینی صدر نے اسرائیل کا رخ کیا جہاں انہوں نے اسرائیل کے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو کھل کر ’’چین اسرائیل‘‘ معاشی اتحاد کے بارے میں بتایا اور اسی وقت یہ طے پایا کہ اسرائیل حیفا کی بندر گاہ کو 25سال کے لیے چین کو پٹے (لیز) پر دے گا۔ اس بندرگاہ کا پورا کنٹرول چین کے پاس ہوگا اس کے علاوہ چین بحرِ احمر تک ایک موٹر وے بنائے جس کی لمبائی 300کلو میٹر ہے یہ منصوبہ 2ارب ڈالر کا ہو گا، اس وقت سے امریکا کو خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ ’’چین اسرائیل معاہدے‘‘ سے امریکا کو اسرائیل سے تعلقات میں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اسی طرح بھارت اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارتی تعلقات اور چین کی بھارت میں سرمایہ کاری دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بھارت اور چین کے درمیان ’’انڈرواٹر‘‘ ٹرین منصوبے پر بھی کام تیزی سے جاری ہے اور دوسری جانب چین بھارت کے درمیان سرحدی تنائو بھی جاری ہے۔ یہ سارا کھیل اس وقت اور بھی حیران کن ہو گیا جب چین نے لداخ اور گلوان ویلی پر قبضہ کر لیا اور بھارتی وزیر اعظم مودی کا اس بارے میں یہی کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ چین نے کچھ نہیں کیا۔ اس کے علاوہ 2017ء، 2018ء اور 2019ء میں چین اور بھارت کی دوستی بڑھنے لگی اور دونوں ممالک کے تعلقات میں اس قدر اضافہ ہوا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دونوں ہی ’’سی پیک میں اپنا کردار ادا کرنے میں پاکستان سے بھی آگے نکل جائیں گے‘‘۔ ان تین سال کے دوران بھارتی وزیراعظم مودی نے متعدد مرتبہ چین کا دورہ کیا ہے۔ چین کے سامنے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بھی ظاہر کرتے رہے ہیں۔ رواں سال مئی میں چین اسرائیل بھارت کے درمیان
دوستی عروج پر تھی۔ اس کے علاوہ لداخ، گلوان ویلی، اور بھارت کے دیگر علاقوں پر چین کے آجانے کے باوجود بھارتی حکومت انجان بنی رہی اور اس دوران بھارت نے چین کے حملوں کو معمولی نوعیت کا حملہ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اس سے بھارت کو کوئی نقصان نہیں ہے۔
اب بھی ایسا ہی شور ہے۔ ہندوستان ٹائم کا کہنا ہے کہ!
Stand-off with PLA pushes Indai to go for new snow-free axis to Ladakh
بھارتی اخبارات کا کہنا یہی ہے کہ چین مسلسل بھارتی فوج کو پیچھے کرنے میں مصروف ہے اس کے علاوہ بھارتی اخبار انڈین ایکس پریس کا کہنا ہے کہ!
Today, Indian strategic autonomy is about coping with Beijing’ challenge to cats territorial integrity sovereignty
بھارتی اخبارات کے اس شور کے بعد بھی ہمارا یہی کہنا ہے کہ ’’لداخ‘‘ اور دوسرے علاقوں پر چین کے قبضے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہے۔ 2017ء سے 2019ء کے دوران بھارتی وزیرِاعظم اور چینی صدر کے درمیان 14ملاتیں ہوئیں کیا ان ملاقاتوں کا نتیجہ بھارت کو شکست یا کشمیریوں پر مظالم میں اضافہ ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر اپنے حکمرانوں سے کہوں گا کہ چین سمیت پوری دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان کس ملک کا نام ہے۔ یو ایس ایس آر اور یو ایس اے جیسے ممالک پاکستان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو یہ کسی اور ملک کو بھی پاکستان سے مقابلے سے پہلے ایک ہزارا مرتبہ غورکرنے ضرورت ہو گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم مانگتے پھرو اپنا غرور ہم سے۔