آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

386

متحدہ عرب امارات کی جانب سے پچھلے ہفتے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان‘ مسلم دنیا پر بجلی بن کر گرا۔ مگر مسلم حکومتوں کی جانب سے اس کا ملا جلا ردعمل بھی آیا، کوئی اسے فلسطینیوں کے ساتھ دھوکا کہہ رہا ہے اور کوئی اسے امن کے قیام کی کوششوں کی میزان کے طور پر دیکھ رہا ہے تاہم یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جس طرح بیان کیا جارہا ہے بلکہ اس معاہدے کے بعد خطے میں جنگ اور کسی حد تک بغاوت کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ تاریخی طور پر اسرائیل کے عرب دنیا کے ساتھ خاموش سفارتی روابط پرانی بات ہے اب یہ تعلقات باضابطہ اور علی الاعلان ہو رہے ہیں۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ امریکا کا دبائو ہے تاہم عرب بہار کے اثرات بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے، سفارتی حلقوں میں ہونے والی بحث میں یہ نکتہ ایک مضبوط دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، عرب بہار کے دوران مسلم سربراہوں کو اندازہ ہوا کہ ان کے اقتدار کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں جبر اور کرپشن کے خلاف عوامی رد عمل ایک مقبول رائے عامہ کی راہ کھول چکا ہے، مصر میں حسنی مبارک اس کا پہلا نشانہ بن چکے ہیں تیونس، سوڈان سمیت دیگر ممالک کئی مثالیں ابھر کر سامنے آئیں۔ متحدہ عرب امارات کے بعد سوڈان بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے گا‘ لیکن دیکھنا ہے اس خطہ میں امریکا کے مفادات کیا ہے؟ روس کیا چاہتا ہے؟ مسلم دنیا کیوں بٹی ہوئی ہے؟
امریکا شام کے صدر بشارالاسد کو ہٹانا چاہتا ہے روس اس کی پشت پر ہے‘ یہاں سے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے کے بعد بھی امریکا نے سعودی عرب کی مدد کے لیے کوئی فوجی قدم نہ اٹھایا‘ کیا یہ سب کچھ سعودی عرب کو خوف زدہ کرنے کے لیے ہے؟ اس خطہ میں ایران کی اپنی سوچ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں عرب مملکتیں خوف کا شکار ہیں ایران کا جوہری پروگرام بھی خطرے کی علامت کے طور پر لیا جارہا ہے۔ عرب سمجھ رہے ہیں کہ واشنگٹن اب ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق اپنی ترجیح تبدیل کر رہا ہے صرف پابندیوں کو ہتھیار کے پر استعمال کر رہا ہے، امریکا کے مقابلے میں اسرائیل کی ایران مخالفت میں رتی بھر بھی کمی نہیں آئی۔ اسرائیل یقین دلاتا رہا ہے کہ وہ ایران کے مقابلے ان کی مدد کو تیار ہے 2009ء میں اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو اقتدار میں آئے تو وہ بیک ڈور چینل ختم کرکے سفارتی روابط سامنے لانے کے لیے متحرک ہوئے، خلیج میں حالیہ تبدیلیاں اسی کا نتیجہ ہیں جس کے بعد 2015ء میں اسرائیل نے سفارتی مشن کھولا تو عرب امارات میں اسرائیل کا پہلا سفارتی دفتر بن گیا۔
بارک اوباما کے دور میں خلیج میں امریکی فوجی موجودگی کم ہونا شروع ہوئی تھی جسے ٹرمپ نے بھی جاری رکھا یوں اسرائیل عرب اتحاد کی فضا بنتی چلی گئی اور خفیہ طور پر واشنگٹن میں روابط آگے بڑھتے رہے اسرائیلی یہ کہتے رہے کہ خطے میں تبدیلی کی چابی فلسطینیوں کے ہاتھ میں کیوں دی جائے؟ مسلسل رابطوں کے بعد جب معاملہ آخری مرحلے میں پہنچا تو صدر ٹرمپ نے اپنے داماد جیرڈ کشنر کے ذریعے
سفارت کاری کی جس نے ڈیل آف دی سنچری کے لیے کام کیا بظاہر تو عرب امارات کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان اچانک ہوا لیکن اس پر کام جاری تھا اور اسے صدر ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت کے انتخابات کے لیے محفوظ رکھا گیا اسرائیلی وزیرِاعظم نے غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کی تاریخ یکم جولائی دی تھی لیکن یکم جولائی آئی اور گزر گئی امریکیوں نے غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کا پتا بہت ہوشیاری سے کھیلا اس ڈیل میں عرب سفیروں کے یہودی دوستوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جون میں اسرائیلی اخبار میں ایک کالم عبرانی زبان میں شائع کرایا گیا تھا کہ اسرائیل غرب اردن پر قبضے اور عرب دنیا سے تعلقات میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے اس پیغام نے اثر دکھایا نیتن یاہو کو منصوبے سے باز رکھنے کے لیے وائٹ ہاؤس نے شرط رکھی کہ اگر غرب اردن کے بڑے حصے کو ضم کرنا ہے تو اس کا 5 سے 10 فی صد حصہ فلسطین کو منتقل کرنے پر بھی ساتھ ہی عمل کیا جائے۔ وائٹ ہاؤس کو یہ بھی اندازہ تھا کہ اسرائیلی حکومت غرب اردن کو ضم کرنے پر تقسیم کا شکار ہے، اس لیے نشانہ ٹھیک جگہ لگا اور نیتن یاہو کو بھی عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کا خواب پورا ہوتا دکھائی دیا، اور یوں یہ معاہدہ طے پاگیا۔ 7 دن میں درجنوں ملاقاتوں اور رابطوں کے نتیجے میں معاہدے کا مسودہ بھی بن گیا اور اسے درست وقت تک چھپا لیا گیا۔
پاکستان میں بحث شروع ہوگئی ہے اس اعلان سے پہلے پاک سعودی تعلقات میں اچانک تلخی آئی لیکن تین سال ہونے والے اسرائیلی طیارے کی اسلام آباد لینڈنگ کی ’افواہ‘ پھیلی تھی آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ مشن تھا کیا؟ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں جب کہ حتمی فیصلہ سعودی شاہ کو کرنا ہے۔ شاہ سلمان فلسطین کاذ کے ساتھ مخلص ہیں امریکی حکام بھی اب تک یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ سعودی عرب اپنے اتحادی متحدہ عرب امارات کی تقلید کرے گا یا نہیں، اسی لیے جیرڈ کشنر کو کہنا پڑا کہ سعودی عرب اگر امارات کی تقلید کرے تو اسے معاشی اور دفاعی فوائد حاصل ہوں گے۔ بحرین سعودی عرب اور عرب امارات کی معاشی مدد پر انحصار کرتا ہے، بحرین علاقائی ردِعمل کو جانچنے کے بعد ہی فیصلہ کرے گا عمان ایران کو مشتعل نہیں کرنا چاہے گا۔ کویت نے کھل کر کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا آخری ملک ہوگا۔ سوڈان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا لیکن اگلے ہی روز وزیر خارجہ نے نہ صرف تردید کردی بلکہ ترجمان کو بھی برطرف کردیا گیا۔ سوڈان کی تردید اور اس ایکشن کے باوجود اس پر حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں، سوڈان کے صدر عمر البشیر کو عرب امارات اور سعودی عرب ایک عرصے تک اس لیے بھاری مالی امداد دیتے رہے کہ وہ ایران کے اثر سے باہر رہے قطر میں بھی حکومت کے خلاف صرف اس لیے بغاوت کی کوشش ہوئی کیونکہ قطر اخوان لیڈروں کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ عرب بہار نے تو چند ایک ملکوں میں حکومتوں کا تختہ بھی الٹا اور دم توڑ گئی لیکن اس عرب بہار کے خلاف عرب امارات نے جو مہم شروع کی تھی وہ اب تک جاری ہے۔