دلدل، کچرا ، حشرات نیا کراچی

220

پی ٹی آئی کی حکمت نیا پاکستان بنانے آئی تھی اس کوشش میں مسسل مصروف ہے لیکن سندھ حکومت اور متحدہ کی بلدیات نے کراچی کا جو حال کیا اس کے نتیجے میں کراچی بارشوں کے بعد کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے ،پورے شہر میں تباہی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک نیا کراچی منظر پر آیا ہے۔ پانی کی نکاسی کے بارے میں وزیر اعلیٰ سندھ نے پیر کو دعویٰ کیا تھا کہ90فیصد علاقوں سے پانی کی نکاسی ہو چکی ہے ۔ وہاں منگل کو بھی جگہ جگہ پانی کھڑا رہا جہاں سے پانی نکل رہا ہے ۔ وہاں سے سڑکیں غائب گڑھے نظر آ رہے ہیں اور گڑھے بھی دو چار انچ کے نہیں ہیں ایک ڈیڑھ فٹ والے ہیں ، سڑکیں بیٹھ گئیں ۔گٹر لائنیں بند ہیں ۔گھروں کے اندر سے پانی اب تک نہیں نکالا جا سکا ہے ۔ بلدیاتی ادارے تو بڑی سڑکوں اور چھوٹی گلیوں تک سے پانی کی نکاسی میں ناکام ہیں گھروں میں داخل ہونے والا پانی تو وہ نکال ہی نہیں سکتے ۔ سیوریج لائنوں میں ریت اور کچرا بھر گیا ہے ۔ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے میں برسہا برس لگ سکتے ہیں لیکن حکومتی اجلاسوں میں صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ گندگی کے ڈھیر اور حشرات الارض کی بھر مار ہے۔ نشیبی علاقوں سے اب تک پانی نہیں نکلا ہے ۔ شہر کی جو صورتحالٍٍ ہے وہ آنے والے دنوں میں بیماریوں کا پیغام دے رہی ہے ۔ اخبارات اُٹھائیں تو سندھ پنجاب ، وفاق کی حکومتیں کراچی پر جان نچھاور کر رہی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے حکمراں جھاڑو ہاتھ میں لیے کراچی چلے آ رہے ہیں اور چند روز میں کراچی صاف ستھرا ہو جائے گا ۔ ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔ یہ دو الگ الگ لہریں ہیں ۔ ایک بیانات کی ہے ایک حقائق کی ۔ بیانات کی لہروں میں حکمراں بہہ رہے ہیں ۔ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف ہیں ۔ الزامات اور جوابی الزامات چل رہے ہیں لیکن حقائق کی لہروں میں اہل کراچی ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ان کے چاروں طرف غلاظت ہے جو غلاظت حکمران برسوں سے اپنے پیٹوں میں بھر رہے تھے وہ سڑکوں پر نکلی پڑی ہے ۔ جو ادارے کراچی کی بحالی کا کام کرنے چلے ہیں انہیں اب بیک وقت کئی محاذوں پر کام کرنا ہو گا۔ ایک جانب سڑکوں کی بحالی ہے توٍ دوسری جانب پانی اور غلاظت کی نکالی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کچرے کو ٹھکانے لگانا بھی ہے ۔ دوائوں کے اسپرے بھی کرنے ہیں، کوئی کام موخر کر کے دوسرا نہیں کیا جا سکتا ۔ سارے کام بیک وقت کرنے ہوں گے ۔ لگتا ہے کہ جانے والوں نے منصوبہ بندی کے تحت آنے والوں کے لیے مسائل میں اضافہ کیا ہے ۔ اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔