قائد اعظم صرف فلسطینی ریاست کے حامی تھے

660

VSRP: No data available
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اسرائیل کے بارے میں دو ریاستی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اسرائیل اور دوسرا فلسطین جن کا بالترتیب دارالحکومت ’’تل ابیب اور یروشلم‘‘ ہونا چاہیے جس کے بعد ہی اسرائیل کو تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان ہی کیا کم و بیش ملک کے تمام حکمرانوں کا طرۂ امتیاز یہی رہا ہے کہ وہ قائد اعظم کا سہارا لے کر ہر اچھی بری اور صحیح غلط باتوں کو قائد سے منسوب کرکے اپنی غیر متوازی باتیں متوازی اور اعلیٰ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قائد اعظم اور ان قریبی ساتھی علامہ اقبال دونوں ہی قیام اسرائیل کے وقت ہی سے اسرائیل نام کی ریاست کے مخالف تھے۔ یہ وقت وہ تھا جب عربوں کے بڑے تیس مار خاں اپنی اپنی ریاست بنانے میں مصروف تھے۔ قائد اعظم اور ان قریبی ساتھی علامہ اقبال دونوں ہی نے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو عربوں کے لیے درد سر ریاست قرار دیا تھا اور قائد اعظم اور علامہ اقبال دونوں ہی نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا۔ قائد اعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا قیام عربوں کے سینے میں خنجر پیوست کرنا ہے اور اس سے عربوں کو تباہ کن صورت حال کا سامنا رہے گا۔ 72برسوں کے بعد قائد اعظم کی یہ بات سچ ثابت ہو ئی۔ قائد اعظمنے یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں کہا تھا جب پوری دنیا میں یہودیوں کو مظلوم، مجبور اور ہٹلر کی درندگی اور تشدد کا شکار اور ان کے بے گھر ہونے پر پروپیگنڈہ کیا جارہا تھا۔
خلافت ِ عثمانیہ نے بھی اسرائیل کے قیام کی اجازت نہیں دی تھی لیکن پورے عالم کفر نے خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد یہودیوں کی ریاست فلسطینی سرزمین پر قائم کی۔ اسرائیلی ریاست کو فلسطینی سر زمین پر قائم کرنے سے قبل ہی 1928ء سے 1930ء کے دوران یہودی سیکورٹی فورس قائم کردی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہاں تاج برطانیہ کی سرپرستی میں صحرائے سینا اور فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں کے گھروں پر قبضہ اور کم قیمت میں دھونس دھمکی سے فلسطینیوں کی زمین ہڑپ کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے بہت پہلے جب سیدنا عمرؓ فاتح کی حیثیت وہاں کے عیسائیوں سے معاہدہ کررہے تھے تو یہ شرط عیسائی اکابرین کی جانب سے معاہدے میں شامل کی گئی تھی کہ یہودیوں کو فلسطین میں مستقل رہائش کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قائد اعظم کے بعد بھی پاکستان کے ہر حکمران نے اسرائیل میں صرف فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھی۔ ہم نے قبل ازیں شاہ محمود قریشی کے 1967ء کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بارے میں بھی لکھا تھا کہ وزیراعظم عمران خان یا کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا راستہ نکالنے کے لیے دو ریاستی فارمولے کو قائد اعظم سے منسلک کر کے پیش نہ کرے۔ اس سے ان کو تو شاید کوئی فائدہ ہوجائے لیکن علامہ اقبال اور قائد اعظم کو یہودیوں کا حامی و مددگار بتانے سے دونوں کی شخصیت اور تاریخ کو مسخ کرنے سے تاریخ کا کچھ نہیں بگڑتا البتہ تاریخ ایسے حکمران کو جھوٹا قرار دے دیتی ہے۔
قائد اعظم نے اپنی وفات سے دو ہفتے قبل عید الفطر کے پیغام میں مسلم دنیا کو عید کی مبارک دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’فلسطین اور کشمیر میں پاور پالیٹکس کا ڈراما جاری ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی نصیحت کی تھی کہ ’’لندن اور جینوا سے داد رسی نہ مانگنا کیونکہ فرنگ کی شہہ رگ پنجہ یہود کے قبضے میں ہے۔ 7اکتوبر 1937ء کو علامہ اقبال نے قائد اعظم کو خط لکھا اور کہا کہ فلسطین کا سوال مسلمانوں کے ذہنوں کو پریشان کررہا ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ آپ ایک مضبوط قرارداد اس پر منظور کریں گے‘‘۔ 15 اکتوبر 1937ء کو لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا تھاکہ ’’تاج برطانیہ نے عربوں سے وعدہ خلافی کی ہے۔ عربوں کو جنگ عظیم میں استعمال کرنے کے بعد جھوٹے وعدے کرکے ان پر اعلامیہ پر اعلامیہ مسلط کردیا گیا۔ اب ہم سے کہا جارہا ہے کہ حقائق کو دیکھیں؟ لیکن یہ صورتحال پیدا کس نے کی ہے؟ یہ سب برطانیہ کا کیا دھرا ہے۔ برطانیہ وعدہ خلافی کرکے اپنی قبر کھودے گا۔ برصغیر کے مسلمان عربوں کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔ اجلاس میں منظور کردہ قرارداد میں اعلان کیا گیا تھا کہ ’’اگر برطانیہ اپنے اقدام سے باز نہ آیا تو مسلمان برطانیہ کو اسلام کا دشمن تصور کریں گے اور وہ اس کے خلاف اپنے ایمان کے تحت تمام اقدامات کریں گے‘‘۔
قائد اعظم اور علامہ اقبال نے یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں کہا تھا جب قیام پاکستان کی جدو جُہد اپنے پورے عرُوج پر تھی۔ لیکن علامہ اقبال اور قائد اعظم نے وقت کا احساس کیے بغیر ’’ٹھیک وقت پر درست اعلان کیا کہ اسرائیل مسلمانوں کے لیے زہرِ ہے اور اس کو ہر گز قبول نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ آج پاکستان سمیت پورے عالم عر ب نے امریکا اور بھارت کو تسلیم کیا ہوا ہے لیکن ان تعلقات سے پاکستان اور عالم عرب کو سوائے نقصان کے کچھ ملا ہے نہ ملے گا۔
متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال اور بھی زور دار آواز میں سنائی دے رہا ہے عربوں نے ایک کے بعد ایک اسرائیل کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ 1967ء ’’خرطوم‘‘ کانفرنس میں ’’عرب لیگ‘‘ نے اعلان کیا تھا کہ اسرئیل کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ اس کانفرنس میں عرب اور شمالی افریقا کے عربی بولنے والے ممالک نے شرکت کی تھی اس اجلاس میں اسرائیل کے خلاف یکجا ہونے والوں سے معلوم کیا جائے کہ وہ کس منہ سے اسرئیل کو تسلیم کر رہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات کو سب سے پہلا جھٹکا اسرائیل نے یہ دیا کہ متحدہ عرب امارات اور امریکا کے درمیان ہو نے والے ’’F-35‘‘ جہازوں کے معاہدے کو اسرائیلی ’’وزیر ِ اعظم نیتین یاہو‘‘ نے امریکا سے مسترد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اسلام اور مسلمانوں سے غداری کرنے والے ماضی میں بھی توپ کے گولوں سے اُڑئے گئے ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ بس وقت کا انتظار کریں۔