کیا یہ غیر قانونی نہیں

357

عزت ِ ماآب عادِل اعظم گلزار احمد نے ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے سندھ حکومت کو حکم دیا ہے کہ سرکاری مکانوں پر غیر قانونی قبضہ دو ماہ میں ختم کرائے۔ اور عدلیہ کو رپورٹ پیش کرے۔ غیر قانونی الاٹمنٹ کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 220 سرکاری گھروں پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ سی ڈی اے کہ وکیل نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد پولیس سی ڈی اے کے 20 کوارٹرز پر بھی قابض ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس کی سماعت کے بارے میں پڑھ کر ہمیں سول کورٹ راولپنڈی کا وہ مقدمہ یاد آگیا جو سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چودھری نے ازخد نوٹس لیتے ہوئے 07-06-2011 میں اداکارہ عتیقہ اوڈھو سے دو بوتل شراب برآمد ہونے پر بنایا تھا۔ جنہیں نو سال بعد باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ دو بوتل شراب کی برآمدگی کا مقدمہ نو سال بعد انجام کو پہنچتا ہے تو غیر قانونی الاٹمنٹ کے 220 گھروں کے مقدمے کا فیصلہ دو ماہ میں کیسے ہوگا۔ اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے نو برسوں میں بیس پیشیاں بھگتیں اور سولہ ججوں کے سامنے پیش ہوئیں۔ عدالت ِ عظمیٰ کے متعدد فیصلے ایسے ہیں جو تاحال عمل درآمد کے منتظر ہیں۔ جن اداروں کے خلاف مقدمے ہیں اْن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومتی ادارے عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کیوں نہیں کرتے۔ اور ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔
پولیس کو شکوہ ہے کہ عدالتیں ان کے بنائے ہوئے مقدمات کی فوری ضمانت لے کر ساری محنت اکارت کرنے کا سبب بنتی ہیں اور مورال ایسا ڈاؤن ہوتا ہے کہ پھر کام کرنے کو جی نہیں کرتا۔ اداکارہ عقیقہ اوڈھو کا مقدمہ نو سال زیر ِ سماعت رہا اس دوران یہ مقدمہ سولہ ججوں کی میز پر انصاف انصاف پکارتا رہا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ جب مقدمات کی سماعت 7 ماہ بعد ایک جج سے دوسرے جج کو منتقل ہوگی تو فیصلہ کیسے ہوگا۔ فوری انصاف کی فراہمی کا دعویٰ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ اور سائل دوہرا ہو جائے گا۔ گویا معاملہ ججوں کی کمی کا نہیں نظام عدل کی نا اہلی کا ہے۔ مہذب ممالک میں عموماً جو مقدمات جو جس جج کی عدالت میں دائر کیا جاتا ہے وہی اس مقدمے کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ اور اگر اس دوران تبادلہ ہوجائے تو جج فیصلہ سنانے سے پہلے اپنی پوسٹنگ پر نہیں جا سکتا۔ ہمارے ہاں تبادلہ ہو جائے تو جج سماعت ہی نہیں کرتا۔ پوسٹنگ آرڈر آنے تک اپنے چیمبر میں بیٹھا رہتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ تبادلہ ہوجائے یا دوسری عدالت میں ٹرانسفر ہوجائے تو پیشی در پیشی کا اذیت ناک کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ اسی لیے بہتر ہوگا کہ عدلیہ ججوں کی کمی کے بجائے مقدمات کی سماعت پر توجہ دے۔ اور بغیر ثبوت کے مقدمات کی سماعت کو جرم قرار دے۔ تو فوری انصاف کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
بہاول پور سول کورٹ میں ایک مقدمہ کئی برسوں سے زیر سماعت ہے، سائل نے جج سے گزارش کی کہ جناب والہ آپ کی زیر سماعت مقدمہ قابل سماعت ہی نہیں۔ کیونکہ میرے مکا ن کا نمبر 152/C ہے۔ اور آپ کی زیر سماعت جو مقدمہ ہے اس کا نمبر 52/C ہے جو کسی اللہ رکھے کی ملکیت ہے۔ آپ ایسے بودے اور بلا ثبوت مقدمے کی سماعت کیوں فرما رہے ہیں۔ جبکہ آپ کے علم میں یہ حقیقت بھی ہے کہ میرا مخالف وکیل پیشی پر آتا ہی نہیں۔ جج صاحب نے کہا اپنے وکیل کو بلاؤ۔ وکیل کو بلایا گیا تو جج صاحب نے عدم پیروی کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا۔ سائل نے کہا جج صاحب آپ نے مقدمہ خارج نہیں کیا بلکہ ڈیڑھ دو سال کی ایک لمبی پیشی دے دی ہے۔
مقدمہ کو دوسرا سال شروع ہوچکا ہے مگر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ کیا یہ غیر قانونی نہیں ہے۔ عدالتیں قانون شکنی کرنے لگے تو انصاف کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔