چینی میزائل حملہ، جاپان نے پھر ہتھیار ڈال دیے

978
  1. آخر کار چین نے عملی طور پر جنگ کا آغاز کردیا۔ 28 اگست کو چین نے 4 میزائل کا تجربہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ نائن ڈیش لائن کے قریب آنے کی کوشش کرے۔ اس سلسلے میں ’’NDTV‘‘ بھارت کا کہنا ہے کہ!
    us china tensions over south china sea rise with the missile tests, sanction
    دنیا کے متعدد اخبارات نے چین کے میزائل تجربے کو سائوتھ چائنا کے سمندروں میں چین کی جانب سے علی اعلان جنگ قرار دیا۔ ان میزائل تجربوں کے بارے میں چین کا کہنا ہے کہ اس نے ابتدائی طور پر نئے میزائل کا تجربہ کیا اس کا ہدف 4 ہزار کلو میٹر تک سمندری جنگی بیڑوں کو تباہ کرنا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ دو میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے لیکن غیر جانبدار ذرائع کا کہنا ہے کہ ساؤتھ چائنا سی کے چاروں اطراف سے چین نے چار میزائل کا تجربہ کیا۔ قبل ازیں 26 اگست کو us department of commerce کی پریس ریلیز کے مطابق چین کی 24 کمپنیوں پر امریکا میں کام کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس بات کو CNN نے اس طرح بتایا کہ!
    us sanction 24 chinese companies over south china sea island building
    اس تجارتی لڑائی میں شاید اتنی شدت پیدا ہونے کا خدشہ نہیں تھا۔ لیکن 27اگست کو U-2 نامی جاسوسی طیارے نے چین کے ’’نوفلائی زون‘‘ پر پرواز شروع کردی جس کو فوری طور پر فائر کرکے بھگادیا گیا۔ چین کے ’’نوفلائی زون‘‘ میں ان دنوںچینی بحریہ کی مشقیں جاری ہیں U-2 نامی جاسوسی طیارے کی چین میں ایک تاریخ موجود ہے ان جاسوسی طیاروں کو 1960ء میں چینی دفاعی تنصیبات کی جاسوسی کے لیے امریکا سے بھیجا گیا تھا اور چین نے 5 جہازوں کو مار گرایا تھا۔ان تباہ شدہ طیاروں کا ملبہ آج بھی چین کے میوزیم میں موجود ہے۔ جس کی تصویر چینی اخبارات نے 28 اگست 2020 کو ایک مرتبہ پھر نمایاں انداز سے شائع کرکے بتایا کہ اگر کبھی امریکا نے دوبارہ ان جہازوں کو چین کی جانب روانہ کیا ان طیاروں کا حشر بھی 1960ء کے تباہ ہونے والے جہازوں جیسا کر دیا جائے گا۔
    28 اگست کو چین کی جانب سے 4 میزائل کے تجربے کے بعد ایک مرتبہ پھر امریکا اور جاپان نے چین کے خلاف اتحاد بنالیا ہے۔ جاپانی تاریخ میں وزیرِ اعظم کے عہدے پر سب سے طویل مدت گزارنے والے شنزو آبے ’طبی بنیادوں‘ پر اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوگئے ہیں۔ اس موقع پر 65 سالہ شنزو آبے کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیماری کے باعث حکومت کے لیے مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ حکمران جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کے حکام نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے۔ 2012 میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد رواں سال وہ جاپان کے طویل ترین عرصے تک عہدے پر رہنے والے وزیرِ اعظم بن گئے۔ وزیرِ اعظم آبے انتہائی قدامت پسند اور قوم پرست شہرت رکھتے ہیں، جبکہ معاشی ترقی اور اپنی جارحانہ معاشی پالیسی کے لیے بھی مشہور ہیں اور یہی ان کی برطرفی کی وجہ بن گئی۔ جاپانی وزیراعظم نے امریکا سے4 ارب 20کروڑ ڈالر کی میزائل کی ڈیل کو ملک کی اقتصادیات اور چین سے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے منسوخ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چین سے عسکری مقابلے کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہتے جس کی وجہ سے 28 اگست کو لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) نے وزیراعظم سے استعفا مانگا تھا۔ اس سلسلے میں جاپانی اخبار! kyodo news کا کہنا ہے کہ:
    Japan us Defense Chiefs Agree to keep china check
    اس طرح امریکا کے لیے دفاعی میزائل کی خریداری کے لیے راہ ہموار کی، دونوں ممالک کے درمیان 4 ارب 20کروڑ ڈالر کی میزائل خریداری ڈیل بحال کی گئی۔ اس ڈیل کو امریکا کے وزیر دفاع نے ہزاروں میل کے فاصلے پر موجود جاپان سے قریب ایک جزیرے پلائو کے Andersen Air Force Base پر دوبارہ زندہ کیا۔
    اس سلسلے میں امریکی وزیر دفاع مارک اسپر Mark Esper اور جاپانی وزیر دفاع کا روکون Karokon کے درمیان مذاکرات کے بعد ڈیل کو بحال کیا گیا۔ اس ڈیل پر جاپانی اخبارات کا سخت ردِعمل سامنے آیا۔ اس سلسلے میں The Japan Times کا کہنا ہے کہ ’’جاپان نے ایک مرتبہ پھر امریکا کے سامنے 75سال بعد ہتھیار ڈال دیے‘‘۔ اخبار نے لکھا آج جاپانی عوام کو 2 ستمبر، 1945 کا وہ دن یاد آگیا، جب جاپان نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ 15 اگست 1945 کو جب جاپانی حکومت نے اتحادیوں کو مطلع کیا کہ اس نے پوٹسڈم ڈیکلریشن کو قبول کرلیا ہے۔ شہنشاہ ہیروہیٹو نے ریڈیو پر جاپان کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا۔
    آج ایک مرتبہ پھر امریکی وزیر دفاع مارک اسپر Mark Esper اور جاپانی وزیر دفاع کاروکون کے درمیان مذاکرات کے بعد مکمل کا مطلب یہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان4 ارب 20کروڑ ڈالر کی میزائل خریداری ڈیل کا بحال ہونا امریکا کے سامنے دوبارہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس سلسلے میں دی جاپان ٹائم نے2 ستمبر، 1945 کو اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی اس تقریب کی فوٹو بھی شائع کی، جس میں ’’شہنشاہ ہیروہیٹو‘‘ پوٹسڈم ڈیکلریشن کو قبول کرتے ہوئے اس پر دستخط کر رہے ہیں۔ اخبار نے حکومت سے کہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر 15 اگست 1945 کو اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی یاد کو تازہ کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں دی جاپان ٹائم کا کہنا ہے کہ!
    75 years legacy of the US-LEAD Occupation of Japan still resonates
    اخبار کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا آج کے ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے جاپان کی امریکا کی نظر میں کوئی اوقات نہیں۔ امریکا چاہے تو 15 اگست 1945 کو اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی یاد تازہ کرا سکتا ہے۔ دی جاپان ٹائم کا مزید کہنا ہے ہے کہ!
    kono, esper look the keep china in check but challenges about
    جاپانی وزیر دفاع ’’کونو‘‘ اور امریکی وزیر دفاع ’’مارک اسپر‘‘ کے چین کے خلاف اتحاد سے جاپان کے لیے طویل مسائل سامنے آئیں گے۔ اس طویل مضمون میں اخبار کا کہنا ہے کہ جاپان کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کی موجودگی میں اس کو جنگ کی ضرورت نہیں ہے۔
    اس پوری صورت حال میں پاکستان کا کردار ایک مرتبہ پھر کلیدی ہوگیا۔ پاکستان کے دورے پر آنے والے طالبان وفد کی چین کے اعلیٰ حکام سے ملاقات اور افغانستان کی ’’سی پیک‘‘ شمولیت کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پاگیا جس کے مطابق افغانستان میں چین اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
    پاکستان کو اپنے اس کلیدی کردار کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور ان حالات سے مفاد نہیں اپنے حصے کا حق پاکستان کو بھی حاصل کرنا ہوگا۔ دنیا کا یہ طریقہ کار نیا نہیں کہ وہ دبنے والے کو دباتی اور اَکڑنے سے ڈرتی ہے۔ گز شتہ 25برسوں سے خطے میں پاکستان کی ایک اہمیت ہے اور پاکستان کی اس اہمیت کو ختم کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہے۔