’’وزیر اعظم ہنیہ‘‘ کی فلسطین آمد، جہادیوں سے رابطے

456

عرب ممالک سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر اور داماد جیرڈ کشنر جب ابوظبی سے رخصت ہوئے تو ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ ان کا ’’روز گارڈن منصوبہ‘‘ جس میں پانچ بڑے اسلامی عرب ممالک کے سربراہ یا ان کے وزیر کو دستخط کرنا تھے کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ انہوں نے اس بات کا ازخود اقرار کیا کہ متحدہ عرب امارات کے علاوہ ایک اور ملک بہت جلد اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔ ہماری اطلاعات کے مطابق جیرڈ کشنر امارات سے فوری طور پر بحرین گئے جہاں انہوں بادشاہ حمد بن عیسیٰ ال خلیفہ سے ملاقات کی جنہوں نے ان کو بتایا کہ وہ سعوی عرب کے بغیر اسرئیل کو تسلیم نہیں کریں گے، جس کے بعد جیرڈ کشنر فوری سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملے لیکن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جیرڈ کشنر سے صاف طور پرکہاکہ ’’فلسطین ریاست‘‘ کے بغیر کسی صورت اسرئیل قبول نہیں۔ بدھ اور جمعرات کی شب قطر نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر نے سے انکار کر دیا۔ اسرئیلی نیوز i24News کا کہنا ہے کہ!
Bahrain, Saudi Arabia reject Kushner bid to normalize ties with Israel
لیکن اس کے بعد مشرق وسطیٰ کی سیاست میں بھونچال آگیا اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے رہنما ’’اسماعیل ہنیہ‘‘ فلسطینی صدر محمود عباس کی دعوت پر دو ستمبر کی رات ترکی سے بیروت اور فوری طور پر غزہ روانہ ہو گئے۔ یاد رہے کہ اسماعیل ہنیہ 2006ء کے انتخابات میں فلسطین کے وزیرِ اعظم منتخب ہو گئے لیکن بعد میں فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل کے کہنے پر انہیں وہاں سے چلے جانے کو کہا تھا لیکن وہ اب بھی فلسطین کے وزیر اعظم ہیں۔ وزیر اعظم ہنیہ کی فلسطین آمد کے بعد جہادیوں سے رابطہ شروع کر دیے۔ اردوان نے انہیں ترکی شہریت بھی دے رکھی ہے۔ حماس رہنما نے فلسطینیوں سے خطاب میں کہا کہ ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امن معاہدے کے بعد فلسطینی قوم کی مزاحمت میں مزید تیزی آئی ہے جو خوش آئند ہے‘‘۔ امریکا اور اسرئیل کے فیصلوں کا نشانہ قضیہ فلسطین اور القدس ہیں۔ ارض فلسطین پر فلسطینی قوم کے وجود کو ختم کرنے اور قضیہ فلسطین کے اسلامی، عرب اور فلسطینی تشخص کو ختم کرنے کی ’’امن معاہدے‘‘ جیسی سازشیں تیزی سے جاری ہیں۔ اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے غزہ کی پٹی کے قریب خطاب میں کہا کہ ’’ارض فلسطین سے باہر فلسطینیوں کے ملک کی کوئی تجویز قبول نہیں ہو گی۔ فلسطینی قوم کا وطن وہی ہے جس میں وہ صدیوں سے رہتے چلے آرہے ہیں۔ اردن یا مصر کی قیمت پر فلسطینی ریاست کا تصور قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس سے قبل اردن اور مصر دونوں ہی ایسی تجاویز کو مسترد کرچکے ہیں۔ فلسطینی قوم کو اپنے ملک اور وطن کا متبادل کوئی اور تصور قبول نہیں۔ فلسطینی قوم نے 1950ء میں متبادل وطن کا پروگرام مسترد کرکے اسے ناکام بنا دیا تھا۔ آج بھی فلسطینی اپنے وطن سے وابستہ ہیں اور اس کی ایک انچ سے بھی دست بردار نہیں ہوں گے۔ اسماعیل ہنیہ نے بتایا کہ قضیہ فلسطین کے دفاع کے لیے نئے علاقائی اتحاد قائم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہم ایک ایسی پالیسی وضع کررہے ہیں جس کے تحت صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا سلسلہ روکا جائے اور فلسطینی قوم کو جامع مزاحمت کا حق دیا جائے۔ حماس نے علاقے میں نئی بنیادوں پر سیاسی تعلقات استوار کرنا شروع کیے ہیں۔ حماس پوری امت کے ساتھ رابطوں کے لیے کوشاں ہے۔ ان رابطوں کا مقصد قبلہ اول اور القدس کے دفاع کے لیے موثر حکمت عملی تیار کرنا ہے۔
اسرائیل عرب حکمرانوں کے لیے ایک خوف کی علامت بن چکا ہے۔ اس کے برعکس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اسرائیل کے خوف کے سانپ کو زیادہ سے زیادہ اپنے اردگرد لپیٹ رہے ہیں۔ یہ صورت حال ان کو کبھی بھی آزادی سے نہ تو زندہ رہنے دے گی اور نہ سکون سے وہ مر سکیں گے۔ چند دنوں سے صدر ٹرمپ کے داماد اپنی اہلیہ کے ہمراہ سپُرمین کی طرح عرب کی فضاؤں میں اس طرح پرواز کررہے ہیں جیسے وہی حکمران ہوں اور سعودی عرب سمیت پورے عالم عرب کے حکمران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر اور داماد جیرڈ کشنر کو خوف، غم اور حیرت سے تک رہے ہیں۔ جیرڈ کشنر پہلے اسرائیل گئے اور وہاں سے ڈرامائی انداز میں ’’امن جہاز‘‘ پر سعودی فضا سے اُڑتے ہوئے امارات پہنچ گئے لیکن امارات اسرائیل کو تسلیم کرنے کے باوجود ابھی تک ’’F-35‘‘ بمبار طیاروں کی امریکا سے خریداری پر بضد ہے۔ کشنر جس خوشی اور دھوم دھڑکے سے کمرشل جہاز میں امارات گئے تھے وہ خوشی اور اُچھل کود امارات سے واپسی میں نظر نہیں آرہی تھی۔ انہوں نے منگل کو ’’التفرا ائر بیس‘‘ سے اسرائیل کے لیے روانگی سے قبل کہا کہ امارات کو F-35 بمبار طیارے کی خریداری کے لیے مذاکرات کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ ہم نے اپنے انہی کالموں میں لکھا تھا اکتوبر میں روز گارڈن امریکا میں ایک تقریب کا انعقاد ہوگا جس میں 5 عرب ملک کے سربراہان یا ان کے وزرائِ خارجہ کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ’’امن معاہدے‘‘ پر دستخط کرنے ہیں۔ لیکن اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے اور جیرڈ کشنر کا کہنا ہے کہ عرب امارات کے ساتھ ایک اور ملک روز گارڈن کی تقریب میں شریک ہوگا۔ یہ ایک ملک کون ہے یہ ابھی سوالیہ نشان ہے لیکن عرب دنیا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ’’بحرین‘‘ امریکا کے سعودی عرب پر دبائو کی وجہ سے روز گارڈن کی تقریب میں اسرائیل ’’امن معاہدوں‘‘ پر دستخط کرکے اسرائیل کو تسلیم کرے گا۔ ادھر اسرائیلی میڈیا ’’y-net‘‘ کا کہنا ہے کہ:
American Pressure on Saudi Arabia attend The Summit in Abu Dhabi
اس خبر میں امریکی دبائو کا ذکر بھی کیا گیا اور آگے چل کر اسی خبر کی تفصیل میں کہا گیا کہ ’’شاہ سلمان‘‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مخالف ہیں۔ اس کے برعکس ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ ساری ہنگامی صورت حال صرف عرب ملکوں میں نہیں ہے بلکہ یہ ہنگامہ اور شور امریکا میں نظر آرہا ہے۔ قبل ازیں عرب ممالک کے دورے پر جیرڈ کشنر سے پہلے وزیرخارجہ امریکا مائیک پومپیو بھی عرب ملکوں سے کوئی اچھی خبر لے کر امریکا نہیں گئے۔
اس پورے کھیل کی تمام تر سرگرمیوں کا آغاز ’’بحرین‘‘ میں ہوا ہے اور بحرین نے بہت پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تیاری کر لی تھی لیکن متحدہ عرب امارات اُس سے آگے نکل گیا۔ کوئی آگے جائے یا پیچھے ملنے والا کچھ نہیں۔ F-35 میں کیا خوبی ہے اس کی حقیقت جرمنی نے کھول کر بیان کر دی ہے ۔ بس اسرئیل کو فلسطین کے قیام کو ختم کرنا تھا اور یہ کام ہمارے مسلمان ممالک کے حکمران بہت کامیابی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خوفزدہ لوگ دنیا میں حکمرانی نہیں غلامی کرتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ اپنی تقدیر میں وہ خود لکھتے ہیں۔