کرچی کرچی سے پانی پانی کراچی تک

325

شاعروں اور ادیبوں نے اپنی نگارشات میں رم جھم جیسی اصطلاحات سے جوڑ کر موسم برسات کا جو حسین سراپا تراشا ہے کبھی برسات اس تصویر کے قطعی متضاد دکھائی دیتا ہے۔ ساون کی برکھا بے قابو ہو کر ایک ڈرائونا خواب اور خوفناک یاد بن کر رہ جاتی ہے۔ اس میں ساون سے زیادہ ہماری ناقص حکمت عملی، کاہلی، بدعنوانی، معاملات کو لٹکائے رکھنے اور آنے والے دنوں اور آنے والی نسلوں پر ٹالنے کی اس عادت کا بھی گہرا دخل ہوتا ہے جو اب ایک عارضہ بن کر ہمارے قومی وجود کا ساتھ چمٹ گئی ہے۔ برسات کو تو برسنا ہے، زلزلوں اور سیلابوں کو تو برپا ہونا ہے، گرمیوں کو لُو اور حبس کو بڑھانا اور سردیوں کو دھند اورکُہر کا تحفہ دینا ہے، گلیشیرز اور لینڈ سلائیڈز کو چلنا ہے کیونکہ یہی قانونِ قدرت اور آئینِ فطرت ہے مگر قدرت نے ان مصائب کے مقابلے اور ان کے نقصانات کو قابو میں رکھنے کے لیے ہی تو انسانوں کو عقل جیسی نعمت بھی عطا کر رکھی ہے اور وسائل اور اسباب بھی مہیا کیے ہیں۔ ہم عقل کا استعمال کرتے ہیں نہ وسائل عوامی اور اجتماعی بھلائی کے کاموں پر لگاتے ہیں نتیجتاً مسائل بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس بار بھی جاتے جاتے برسات کا موسم اپنا کوئی خوبصورت نقش چھوڑ کر جانے کے بجائے خونیں نقش چھوڑ گیا۔ یوں تو ملک میں شمال سے جنوب تک بارشوں نے تباہی مچادی مگر جنوب کی تباہی ایک آفت بن کر سامنے آئی۔
کراچی جو دہائیوں کی دہشت گردی، خانہ جنگی، لاقانونیت، ملیشیائوں اور ہتھیار بند مسلح گروہوں کے ہاتھوں کرچی کرچی ہوا ہے برسات کے باعث پانی پانی ہو کر رہ گیا۔ سچ تو یہ کہ ہے کہ اس تباہی کا الزام برسات کو دینا زیادتی ہے۔ یہ ان انسانوں کا قصور ہے جو کراچی کو دودھ دینے والی گائے سمجھ کر اس کا دودھ نچوڑتے رہے مگر اس بات سے قطعی لاتعلق رہے کہ اس گائے کو اچھی غذا بھی کھلانا ہے اور یوں یہ گائے اب صرف انجر پنجر بن کر رہ گئی اور اس کا دودھ دھونے والے کراچی سے دوبئی، لندن سے نیویارک اور ہانگ کانگ سے ملائیشیا اور جنوبی افریقا تک دولت کے انبار لگائے بیٹھے ہیں۔ کراچی مون سون کی تباہ کاریوں کا مرکز اور محور رہا۔ کراچی میں غریبوں کی بستیاں اور امیروں کے محلات، کھوکے اور پلازے کچی پگڈنڈیاں اور کشادہ شاہراہیں سب پانی کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ شہر کی سڑکیں سمندر بن گئیں اور ان میں گاڑیوں کے بجائے کشتیاں چلتی دیکھی گئیں۔ بارش نے غریب، متوسط اور ایلیٹ کلاسوں کا فرق مٹادیا اور سب کو بے بسی کی تصویر بنا ڈالا۔ لیاری اور ڈیفنس کی تفریق مٹا ڈلالی۔ ملک بھر کے کروڑوں لوگوں کو اپنی پناہوں میں رکھنے والے شہر کے باسی پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے دیکھے گئے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں ٹوٹ پڑنے والی آفت میں اپنی مٹھی کھولنے اور دل فراخ کرنے والے کسی مسیحا کے انتظار میں دست سوال دراز کیے ہوئے رہے۔ پانی، میں ڈوبنے اور کرنٹ لگنے سے درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے۔
کراچی کے مسائل کے حل کے لیے وفاق اور صوبے کے درمیان کافی عرصے سے آنکھ مچولی جاری تھی۔ دونوں حکومتوں کے درمیان اعتماد ہی کی کمی نہیں تھی بلکہ توتکار کا ایک مسلسل عمل جاری تھا۔ وفاق کا کوئی نمائندہ کسی کاٹ دار جملے سے صوبائی حکومت کی چٹکی کاٹتا اور پھر صوبائی حکومت کا ردعمل قابل دید ہوتا۔ کراچی کے مسائل اس توتو میں میں کی بے مقصد تکرار تلے دبے ہوئے تھے۔ کبھی گورنر راج کی افواہیں چلتی تھیں اور کبھی عدم اعتماد کی باتیں شروع ہوجاتیں۔ صوبائی حکومت چیخ وپکار کرتی اور پھر وفاق سے کوئی ایسے ارادوں اور عزائم کی تردید کرتا اور یوں کچھ وقت کے لیے امن ہوجاتا اور سب اچھے بچوں کی طرح خوش خوش رہنے لگتے۔ کراچی پانیوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ یونس ڈھاگا نامی شخصیت پر کراچی کی مسیحائی کے لیے اتفاق ہونے کی خبر سامنے آئی۔ تھوڑی ہی دیر میں سندھ حکومت کی طرف سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ یونس ڈھاگا کا نام وفاق کی طرف سے سامنے آیا ہے مگر صوبائی حکومت نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ آفت اس قدر پھیل رہی تھی کہ چار وناچار صوبے کو وفاق سے باقاعدہ مدد طلب کرنا پڑی اور یوں وفاق اور صوبے کے درمیان کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تین نکات پر اتفاق ہوا۔ یہ حادثہ اس قدر بڑا تھا کہ دونوں کے درمیان کسی اتفاقی نکتے تک پہنچنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ اتفاق رائے کی خبریں سامنے آئیں تو مبارک سلامت کا شور برپا ہوگیا۔ یوں لگا کہ بڑا مشکل معرکہ سر ہوگیا حالانکہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے یہ اتفاق بہت پہلے کسی حیل وحجت کے بغیر ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ کراچی ایک مدت سے حالات کی صلیب پر جھولتا چلا آرہا تھا۔ پاکستان کا عروس البلاد جس نے بدترین حالات میں ملک کے طول وعرض سے کروڑوں لوگوں کو اپنی چھائوں میں بسایا ہوا ہے۔ دور دراز سے اس شہر میں آکر لوگ اپنا نام بھی نام بناتے ہیں پیٹ بھی بھرتے ہیں اپنے آبائی علاقوں میں بھی حالات کو بہتر بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ جس انداز سے اس شہر کا دل اور دامن اہل وطن کے لیے وسیع اور دراز رہا ہے اس کے بدلے میں اس شہر کو زبوں حالی ہی ملی۔ اس شہر کے حاکموں کی دلچسپی کا محور کراچی کے بجائے سیاسی قیادت، سیاسی جماعت یا اپنی نسل اور زبان رہی۔ ان غیرمنصفانہ رویوں نے کراچی کو مسائل کا جنگل بنا دیا۔ وفاق نے اسے سندھ کا مسئلہ سمجھا، سندھ نے اسے زبان کی عینک سے دیکھا اور یوں کراچی شہر آشوب بنتا چلا گیا۔ اب بھی یقین سے نہیں کیا جاسکتا اس سانحے کے بعد حکمران کراچی کے مسائل کے حل کے لیے سرجری کا دیرپا اور پائیدار راستہ اختیار کریں گے۔ کراچی کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے جن نکات پر اتفاق ہوا ہے یہ اتفاق پہلے کیوں نہ ہوسکا؟ شاید یہ بات ہمارے قومی مزاج میں رچ بس گئی ہے کہ ہم کسی اچھے کام کے لیے حادثات کے منتظر رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے اچھائی ہماری عادت اور فطرت کا حصہ نہیں یہ تو حادثات ہوتے ہیں جو ہمیں اچھائی اور خیر کے کام کے لیے سرگرم کرتے ہیں۔