فرانس نے نقاب اتار دیا

502

فرانسیسی صدر عمانویل ماکرون نے کھل کر اعلان کردیا ہے کہ اگر کسی کو فرانسیسی شہریت چاہیے تو اسے مذہب کی توہین برداشت کرنی ہوگی ۔ انہوں نے منطق پیش کی ہے کہ فرانس میں شہریت لیتے وقت کسی نے کسی ایک مذہب یا دھڑے کا انتخاب نہیں کیا تھا بلکہ ملکی قوانین کی پاسداری کا حلف اٹھایا تھا جس کی رو سے انہیں علیحدہ اپنی سرگرمیاں کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی آزادی اظہار رائے پر یقین رکھے یا نہیں ، اسے گستاخانہ خاکوں کی شکل میں صلاحیتوں کے آزادانہ اظہار کو بہر صورت برداشت کرنا ہوگا ۔ یہ باتیں فرانسیسی صدر نے جمہوریت کی 150 ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کے موقع پر کہیں ۔ فرانسیسی صدر نے جو کچھ کہا ہے وہ مغرب کے اندر کا غبار ہے اور اس باطن کو انہوں نے کھل کر ظاہر کردیا ہے ۔ یہ خبث امریکا ، اسرائیل اور بھارت میں بھی ظاہر ہورہا ہے ۔ اب تک چہرہ روشن اندروں تاریک کے مصداق سے فرانسیسی صدر کی طرح کے اعلانات سامنے آتے رہے ہیں ۔ صدر ماکرون نے جو کچھ کہا ہے اس تو اس اعتبار سے سراہا جانا چاہیے کہ جو کچھ اب تک وہ کرتے رہے ہیں ، اس کا انہوں نے اب کھل کر اعتراف کرلیا ہے ۔ اپنا اصل غبار سب کے سامنے نکال باہر کیا ہے اور برملا مسلمانوں اور پیغمبر اسلام سے اپنی نفرت کا کھل کا اظہار کردیا ہے ۔ امریکا کی پچاس سے زیادہ ریاستوں میں بھی یہ سلسلہ چل رہا ہے مگر وہ زیادہ تر ڈھکے چھپے رہتے ہیں ۔ یوں تو قانون سارے مذاہب کو تحفظ دیتا ہے ، اس لیے کبھی کسی کو انصاف بھی مل جاتا ہے لیکن فرانسیسی صدر نے وہ کچھ کہہ ڈالا جو برسوں سے مغرب کے دلوں میں تھا ۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ سب کچھ 9/11 کا شاخسانہ ہے بلکہ 9/11 بھی اسی نفرت کا نتیجہ ہے اور اس کی منظم منصوبہ بندی کا راز بھی سامنے آچکا ہے ۔ عمانویل ماکرون کی زہریلی گفتگو کو ان کی پریس کانفرنس میں اپنے ملک کے صحافی کو اظہار رائے کی آزادی کے استعمال پر جھڑکتے ہوئے دیکھا جائے تو فرانس کا دہرا چہرہ سامنے آجاتا ہے ۔ وہ اپنے صحافی پر اس لیے برسے تھے کہ اس نے ان کے دورہ لبنان میں مسلم جہادی گروپ سے ان کی ملاقات کی خبر کو اپنی ویب سائٹ پراپ لوڈ کردیا تھا ۔ اپنے ملک میں اپنے ہی صحافی کو تو وہ اظہار رائے کی آزادی دینے کو تیار نہیں ہیں بلکہ اسے قومی مفاد اور ریاستی مفاد کی آڑ میں روک رہے ہیں ۔ قومی مفاد اور ریاستی مفاد کے مقابلے میں انبیا کی حرمت تو بہت ہی بلند ہے ۔ اس مرتبے کے منافی خاکے ہٹائے جائیں اور محض دو ٹکے کی شہریت اس کی قیمت رکھ دی گئی تو ایسی شہریت کو عام مسلمان ٹھوکر مار کر فرانس سے نکل جائے گا ۔ یقینا ماکرون کے اس بیان پر فرانس میں ردعمل ہوگا ۔ یہ ردعمل دینے والے اپنی فرانسیسی شہریت کو داؤ پر لگائیں گے لیکن او آئی سی ، پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی وغیرہ جو امت مسلمہ کے لیڈر کہلائے جاتے ہیں اور انہیں یہ پسند بھی ہے ، وہ اب کیا کرتے ہیں ، دیکھنے کی بات یہی ہے ۔ ان ہی کے ردعمل کی بنیاد پر ماکرون کا دماغ درست ہوگا ۔ رفتہ رفتہ عالم کفر اپنے چہرے سے خود ہی نقاب نوچ کر پھینک رہا ہے ۔ مسلمانوں کے اندر جذبات تو ابھر رہے ہیں لیکن کسی ریاست میں اتنا ایمان موجود نہیں ہے کہ وہ ایسے ملک سے تعلقات توڑ لے ۔ اب اس کا جواب یہ کہہ کر دیاجا سکتا ہے کہ چونکہ تم ہم سے تعلقات اختیار کرنا چاہتے ہو تو اسرائیل کا بائیکاٹ اور اس سے نفرت قبول کرنی پڑے گی یا مسلم ممالک فرانس سے اسلحے کے سودے منسوخ کردیں یا کوئی مسلم ملک فرانسیسی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ہی کرلے ۔ یہ سب یا ان میں سے کچھ بھی نہیں ہونے جارہا ، یہ سب سوتے رہیں گے ۔ امت مسلمہ کو خود اٹھنا ہوگا ۔ ماکرون نے جمہوریت کی 150 ویں سالگرہ سمجھ کر یہ تقریر کی ہے لیکن درحقیقت یہ اسی جمہوریت کی 150 ویں برسی تھی جس کی کوکھ سے آزادی اظہار رائے اور اس سے یہ خبث نکلا ہے ۔ پھر ایسی جمہوریت کو کون مانے جس میں کسی مسلمان کے نبی کی شان میں گستاخی کو تحفظ حاصل ہو ۔ مغرب کے ان سفاک لوگوں کو یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان تمام انبیا کا احترام اور تکریم کرتے ہیں ۔ سب کو اللہ کا بھیجا ہوا اور ہدایت یافتہ تسلیم کرتے ہیں۔ وہ نہ تو حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں کوئی غلط بات کہتے یا سنتے ہیں نہ حضرت موسیٰؑ ، حضرت یعقوبؑ اور کسی اور نبی کے بارے میں ۔ لہٰذا ان کے شیاطین بے خوف ہو کر نبی آخری الزماں ﷺ کے بارے میں گستاخیاں کرتے ہیں ۔ اگر کبھی کسی فرانسیسی ، امریکی یا برطانوی باشندے نے کبھی حضرت عیسیٰؑ ، حضرت موسیٰؑ یا حضرت یعقوبؑ میں سے کسی کی شان میں گستاخی کردی تو بھی ان یورپی اور مغربی عناصر اور حکمرانوں کا باطن کھل کر سامنے آجائے گا ۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود اپنے ووٹروں کی خاطر ہی چیخ پڑیں گے ۔ مسئلہ توہمارا ہے ۔ امت مسلمہ اور اور اس کے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ایسی باتوں پر جسے چوری اور سینہ زوری ، ڈھٹائی یا کچھ بھی کہا جائے ، اس پر خاموش کیوں بیٹھے رہتے ہیں اور جب کہیں عوام نکل پڑتے ہیں تو پھر فون اٹھائے جاتے ہیں اور اجلاس بلائے جاتے ہیں ۔ اپنے ایمان ہی کی فکر کر لیں۔