’’جھوٹے صحافی‘‘ اور ’’وعدہ خلاف‘‘ حکمران سخت سزا کے مستحق

510

وزیراعظم عمران خان نے ’’الجزیرہ ٹی وی‘‘ کو انٹرویو میں چین، امریکا، سعودی عرب، اسرائیل کے بارے میں جس طرح بیان دیا پوری قوم عمران خان کی اس پالیسی کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر فلسطینیوں اور کشمیریوں کے دکھ بہت اچھے انداز سے میڈیا کے سامنے رکھے اور یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ لیکن الجزیرہ ٹی وی کے رپورٹر نے جب ان کو ملک کے خراب حالات اور انتخابات میں عوام سے کیے گئے وعدوںکو یاد کرایا تو عمران خان نے نہ صرف تسلی بخش جواب نہیں دیا بلکہ اس کا الزام وہ پاکستانی صحافیوں پر لگاتے رہے کہ پاکستانی صحافی ان کی حکومت پر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں اور ان کے بارے میں من گھڑت خبریں شائع کرتے ہیں۔ اس موقع پر ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان میں صحافی غیر محفوظ ہیں تو انہوں نے صحافیوں کے بارے میں حقارت و نفرت کے ساتھ جواب دیا کہ صحافیوں کو نہیں حکومت کو خطرہ ہے۔ اس کے بعد دوسرے ہی لمحے میں یہ جواب دیا کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافی کی جھوٹی خبروں پر عدالت جائو تو فوری طور پر ’’آزادی صحافت‘‘ پر قدغن کا سوال پیدا کر دیا جاتا ہے۔
یہ اور بہت سارے شکوے عمران خان اکثر اوقات صحافیوں کے بارے میں کرتے رہتے ہیں۔ سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ ملکی صحافیوں کے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب یہی سیاستدان حکومت میں ہوں تو ان کو سب سے زیادہ برے ملکی صحافی لگتے ہیں اور یہ غیر ملکی صحافیوں سے پاکستانی صحافیوں کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فلاں ملک کے صحافی بہت اچھے ہیں ملک بھر کے صحافیوں اور ان کی تنظیموں نے ہمیشہ جھوٹی خبریں لگانے والے صحافیوں کی مذمت کی ہے اور ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے، لیکن حکومت احتساب کی طرح صحافیوں کے بارے میں دوہرے معیار سے دوچار ہے۔
عمران خان نے جب 170 دن تک کنٹینر پر چڑھ کر پورے ملک کو بھاری نقصان پہنچایا، ان دنوں چین کے صدر کا دورہ عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے منسوخ ہوا، ملکی اثاثوں پاکستان ٹیلی وژن کے دفتر پر عمران خان کے کارکنان توڑ پھوڑ کرتے رہے۔ وہاں موجود عملے کے ارکان اور صحافیوں کو مارتے پیٹتے رہے اور ’’گر تو برا نہ مانے‘‘ اپنے زرخرید صحافیوں کو بھاری رقوم دے کر اپنی مہم کو مظلوم اور عوام و ملک کی بقا و سلامتی کو اپنے انتخاب میں کامیابی سے مشروط کرواتے رہے، ملکی سلامتی کے اداروں کو ’’امپائر‘‘ کی انگلی قرار دے کر اُٹھانے کا مشورہ دیتے رہے اور 2018ء کے انتخاب میں ایسی ویسی کامیابی حاصل کی۔ ان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین اپنے جہاز کو موٹر سائیکل کی طرح استعمال کرکے رحیم یار خان، سندھ اور دیگر سرائیکی علاقوں کے ایم این اے کی خرید و فروخت میں نہ صرف ملوث رہے بلکہ انہوں نے ٹی وی پر آکر خود اعلان کیا 35 سے 40 ارکان قومی اسمبلی ان کی جیب میں ہیں۔ اس وقت تک سب ٹھیک کی بانسری بجائی جارہی تھی اس وقت عمران خان کو یہ نظر نہ آیا کہ یہ سب کرپشن کے سوا کچھ نہیں لیکن جب جہانگیر ترین نے احسان کا بدلہ طلب کیا تو بدعنوان ہو گیا۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 10 برس میں ’’آئی پی پیز‘‘ نے 45 ارب ڈالر کی کرپشن کی ہے۔ عمران خان نے آئی پی پیز میں ہونے والی کرپشن کے لیے ایک کمیٹی بنائی لیکن بیرون ملک سے ان کے پاس کوئی پیغام آیا اور انکوائری بند۔
چند جملے عوام کے بھی سن لیں۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمت کم کریں گے۔ یہ سب کچھ آپ کی اپنی سابقہ تقریروں میں مل جائے گا۔ آپ نے ایک موقع پر یہ کہا تھا کہ ’’ڈالر اور پٹرول مہنگا ہو تو سمجھ لو کہ حکمران کرپٹ ہے‘‘۔ آج آپ کی حکومت میں یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں سے بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب پوری دنیا میں پٹرول کا بھائو 22 ڈالر فی بیرل تھا۔ پاکستان میں پٹرول 40 سے 45 روپے فی لیٹر فروخت ہونا تھا عمران حکومت میں پٹرول 100 فی لیٹر سے زائد پر فروخت ہو رہا تھا دنیا بھر میں بینکوں کے قرضوں پر سود 0.5 فی صد ہوگیا تھا آپ کی حکومت کے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر باقر 13.25 فی صد بینکوں کے قرضوں پر سود وصول کر رہے تھے کیا جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا یہ سب کچھ کرپشن اور بدعنوانی میں نہیں آتے۔
آپ نے بتایا کہ زرداری اور نوازشریف بدعنوان ہیں یہ ٹھیک بھی لیکن آپ تو بدعنوان نہیں ہیں۔ زرداری اور نوازشریف جیسے بدعنوانوں کے دور میں ڈالر 105 روپے، پٹرول 85 روپے لیٹر، آٹا 35 روپے کلو، چینی 54 روپے کلو اور جی ڈی پی 5.4 سے 5.7 کے درمیان تھی۔ لیکن آپ کے دور میں ان اشیا کی قیمتیں بالترتیب ڈالر 150 سے 170 روپے، پٹرول 85 سے 110، چینی 70,65,60 اور اب 100 روپے میں عام فروخت ہو رہی ہے۔ عمران خان جیسے ایماندار حکمرانوں کے دور میں بدعنوانوں کو اتنی جرأت کہاں سے آئی کہ انہوں نے اشیاء ضروریہ کے بھائو 100 سے 150 فی صد بڑھا دیے ہیں۔ موجودہ حکومت نے دو سال میں 11.3 کھرب روپے کا قرضہ لینے کا ریکارڈ قائم کیا ہے جس سے جی ڈی پی کے تناسب سے قرضہ 87.2 فی صد تک جا پہنچا ہے۔ یہ قرضہ 2019 میں 86.1 فی صد تھا جس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو پریشان کن ہے جون 2018 سے جون 2020 تک غیر ملکی قرضوں میں بھی تقریباً 52 فی صد اضافہ ہوا جو تشویشناک ہے۔ قرضوں میں اضافے کی ایک اہم وجہ آئی ایم ایف کے احکامات ہیں جن کی وجہ سے روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی لائی گئی اور ہماری کرنسی دو سال میں ڈالر کے مقابلہ میں 110 روپے سے 167 روپے تک گر گئی تاہم اس سے ملکی ایکسپورٹ میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا جبکہ غربت میں اضافہ ہوا۔
اقتدار میں آنے سے پہلے آپ کا کہنا تھا کہ سرکاری تحویل کے ادارے پاکستان اسٹیل، پی آئی اے اور دیگر ادارے خسارے میں اس لیے چل رہے ہیں کہ یہاں انتظامیہ بد عنوان ہے۔ اب کیا پی آئی اے کا خسارہ کم ہوگیا ہے اور پاکستان اسٹیل عبدالرزاق دائود کے کہنے پر آپ نے بند ہی کر دی۔ آپ کی اچھی اور ایماندار حکومت کے 50 فی صد سے زائد ارکان ماضی کے کرپٹ اور بدعنوان حکمرانوں کے ہمراہ تھے اور وہ آج بھی آپ کی حکومت کو کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔
عوام کی قوت خرید پر منفی اثر پڑتا ہے اور وہ ضروریات زندگی حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتے جس سے بے چینی اور جرائم بڑھتے ہیں جبکہ طلب کم ہو جاتی ہے جس سے پیداواری شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ تیل کی مقامی پیداوار میں 20فی صد تک کمی اور درآمدات میں 25فی صد تک کمی کے باوجود حکومت نے مالی سال 2020 میں 2019 کے مقابلہ میں پٹرولیم لیوی کی مد میں 43 فی صد زیادہ وصولی کی جس نے عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا۔ ہمارا یہ مطالبہ رہا ہے کہ جھوٹی خبریں چھاپنے والے صحافیوں اور انتخابی مہم میں عوام سے کیے گئے جھوٹے وعدے کرنے والے حکمرانوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ دوسرے ان سے سبق حاصل کریں۔ لیکن ایسا کرے گا کون؟