نظریہ ہی ملک کا دفاع کرے گا

102

اب تو پاکستانی قوم 1965ء کی جنگ کی یاد میں یوم دفاع اس طرح نہیںمناتی ہے جس طرح پہلے منایا جاتا تھا ۔ا ب تو ٹی وی پر ،اخبارات میں اور کہیں کہیں جلسوں میں یوم دفاع منا لیا جاتا ہے ۔ اور تو اور فوج بھی جی ایچ کیو میں یوم دفاع مناتی ہے ۔ یہ دن تو 1965ء میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے اور پاکستان کے کامیاب دفاع کی یادمیںمنایا جاتا ہے ۔ یہ وہ دن ہے جب پوری پاکستانی قوم 1947ء کے جذبے کے ساتھ میدان میں تھی ۔پنجا ب کی سرحد پر دیہاتیوں نے تربیت یافتہ بھارتی فوجیوں کو اس طرح پکڑ پکڑ کر مارا جیسے وہ فوجی نہیں چور ہیں ۔ پاکستانی فوج کے افسروں اور جوانوں نے جرأت و بہادری کی بے مثال تاریخ رقم کی ۔ پاک فضائیہ کے ہیرو ایم ایم عالم کا دو منٹ میں سات بھارتی طیارے گرانے کا ریکارڈ تو آج تک نہیں توڑا جا سکا ۔ اب 27 فروری کو پاکستانی پائلٹوں حسن اور نعمان نے اس کی ایک جھلک دکھائی تھی … نظریاتی مملکت کا دفاع بھی ایک نظریے کا متقاضی ہوتا ہے ۔اور پاکستان کے خلاف صرف جغرافیائی حملے نہیں ہو رہے بلکہ اب پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر زیادہ حملے ہو رہے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو اندرونی دشمنوں سے زیادہ خطرہ ہے۔ وہ تو اپنے اور امریکی مقاصد کے لیے یہ کہا کرتے تھے لیکن پاکستان کو آج در حقیقت اندرونی دشمنوں سے بھی زیادہ خطرہ لا حق ہے۔ سیاسی قیادت نظریے سے واقف نہیں پوری قیادت کا ایک ہی نظریہ ہے ہر قیمت پر اقتدار اور دوسرانظریہ وہ مخالف سیاسی پارٹیوں کو چور ڈاکو لٹیرا وغیرہ قرار دے کر انہیں جیلوں میں ڈالنا ہے ۔ پاکستان عسکری اعتبار سے 1965ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے ۔ اس کی بری افواج تربیت کے ہر معیار پر پورا اترتی ہیں ۔ بحریہ کے پاس جدید اسلحہ اورجہاز آ چکے ہیں ۔ فضائیہ اب ایف 16 اور جے ایف تھنڈر 17 جیسے طیاروں سے لیس ہے ۔ حال ہی میں دو بھارتی طیاروں کو لمحوں میں گرا کر پاک فضائیہ نے اپنی برتری منوا لی ہے ۔ لیکن پاکستانی قوم اب دفاع پاکستان کے حوالے سے بہت پیچھے جا چکی ہے۔ 1965ء میں ہر پاکستانی کے دل و دماغ میں نظریہ پاکستان زندہ تھا۔کئی برس تک ہر سال پاکستانی قوم سڑکوں پر نکل کر یوم دفاع مناتی تھی ۔ یوم دفاع کی خصوصی پریڈ ہوتی تھی ۔ پاکستانی اسلحے کی نمائش ہوتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ’’انلائٹنڈ ‘‘روشن خیالی نے یہ جذبہ سرد کر ڈالا اور اب پاک فوج جی ایچ کیو میں یہ پریڈ کرتی ہے ۔ قوم اپنے اسلحے اور میزائلوں ، طیاروں ، توپوں کے دیدار سے محروم ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ میزائل ٹینک اور توپیں بھی آئیڈیاز میں نظر آنے لگے ہیں اسلحے کی نمائش سے قوم کے جذبے اور حوصلے کو مہمیز ملتی تھی ۔ آج پاکستان کو دفاع پاکستان کے لیے ہتھیار ، ٹیکنالوجی اور فوجی قوت سے زیادہ نظریاتی قوت کی ضرورت ہے ۔ خود پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ جنگیں اسلحے سے زیادہ ایمان اور عزت، غیرت اور حب الوطنی کے جذبے اور عوام کے اعتماد سے لڑی جاتی ہیں ۔پاکستان کے پاس اسلحہ تو موجود ہے ۔1965ء میں ایٹم بم نہیں تھا ۔ ایف 16نہیں تھے اور جے ایف تھنڈرنہیں تھے ۔،جدید رائفلیں نہیں تھیں ۔ الخالد ٹینک بھی نہیں تھا۔لیکن نظریہ ایک ایک افسر کے دل میں تھا سپاہی کی زبان پر کلمہ تھا حتیٰ کہ جنرل ایوب خان کو بھی اپنی تقریر کلمہ طیبہ سے شروع کرنا پڑی کیونکہ اس کے بغیر قوم کو پکارا نہیں جا سکتا تھا ۔ کیا ہماری عزت غیرت اور حب الوطنی کا جذبہ زندہ ہے ۔ بھارت 72 برس سے کشمیریوں پرمظالم ڈھا رہا ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کی غیرت کہاںہے ۔ بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر دیا ، ہمارے حکمرانوں نے کیا قدم اٹھایا ۔ فضائی اور زمینی راستے بند کرنے کے بجائے بھارتی دوائیں درآمد کرلیں۔ پاک فوج کے ترجمان بھی جانتے ہیں کہ حکمرانوں کو عوام کا اعتماد بھی حاصل نہیں ۔ ایسے میں یوم دفاع کی ذمے داری سنجیدہ اورمحب وطن سیاستدانوں اور دینی حلقے پر عاید ہوتی ہے ۔ اگر پاکستان کا دفاع کرنا ہے تو پہلے نظریہ مستحکم کرناہو گا ۔ حکمراں تو برسوں سے نظریے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں ۔ کبھی نصاب سے تاریخ پاکستان نکالتے ہیں تو کبھی اسلامی اسباق ۔اسی نظریے نے تو قوم کو نا قابل تسخیر اور حکمرانوں کوسر اٹھانے کے قابل بنایا ہوا تھا ۔ اس کے بغیر تو یہ سب زیرو ہی ہیں۔