ہم پیدا تو اتفاق سے گائوں میں ہوئے لیکن ہماری سکونت کراچی میں رہی۔ لانڈھی کے مضافات میں پلے بڑھے، اس کے آس پاس گھومتے گھامتے رہے، زیادہ دور چلے گئے تو گلشن حدید کو چھو آئے۔ اور پھر ذرا پَر نکل آئے تو شہر کی طرف نکل لیے۔ اس شہر میں قسما قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑا۔ کوئی اُردو بولنے والا ہے تو کوئی پنجابی بول رہا ہے۔ سرائیکی، اور بلوچی کی مٹھاس لیے دوست بھی ملے۔ پاکستان کا کون سا کونا ایسا ہے کہ جس کا کوئی باشندہ اس شہر میں نہ پایا جاتا ہو۔ بہت سارے لوگ انگریزوں اور پٹھانوں ہی کو خوبرو سمجھتے ہیں۔ اس شہر میں آنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ یہاں تو پنجاب کے چوڑے شانے والے خوب صورت نوجوان بھی پائے جاتے ہیں۔ سندھ کی دھرتی میں بھٹو نے غربت کے جتنے بھی جھنڈے گاڑے ہوں یہاں سمجھدار اور سلجھے ہوئے، سیاسی وژن سے مالا مال سندھی نوجوان بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چمکتی آنکھیں اور متحرک بلوچ اور چائنا کے بھائیوں سے مشابہت رکھنے والے گلگتی لڑکوںکی محفلیں بھی اس شہر میں سجتی ہیں۔ ان سب لوگوں کو خوب جانا اور پرکھا لیکن ہمارے سب سے زیادہ دوست اُردو بولنے والے رہے اور یہ فطری بات تھی کہ یہ شہر درحقیقت اُردو بولنے والوں کا ہے اور تو چھوڑیے اُردو زبان کا راج دیکھیے کہ کراچی میں دیگر شہروں سے اپنے ساتھ لائے ہوئے مقامی زبانوں کو آہستہ آہستہ وہ پیچھے دھکیل چکی ہے۔ آپ پاکستان کے کسی بھی شہر سے آئے ہوں۔ یہاں آکر چند برس گزار جائیے اپنی زبان بھول جائیں گے۔ ہماری اپنی زبان تو روالی ہے، جسے ہم کوہستانی بھی کہتے ہیں۔ اب ہمارے گھروں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ نئی آنے والی نسلیں اُردو بول رہی ہیں۔
اسے آپ اچھا کہیں یا بُرا… لیکن حقیقت یہی ہے۔
ہمارے اُردو بولنے والے ساتھی نہ صرف شکل و صورت میں بلکہ سمجھداری اور ذہانت میں بھی کم نہیں۔ اس شہر کا ہر فرد بہت ہوشیار ہے۔ لیکن جلد خوف کا شکار ہوجاتا ہے۔ وطن پرستی اور قوم پرستی شاید ان میں نہیں تھی، اگر ہوتی تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔ اپنا گھر بار اور سب کچھ چھوڑ کر آنے والے پر آپ کم از کم تعصب کا الزام نہیں دھر سکتے۔ لیکن کیا حقائق بھی ایسے ہی ہیں؟
یقینا نہیں! الطاف حسین نے اس قوم کے رگ وپے میں عصبیت کی آگ جو بھری اور ایسی بھری کہ یہ قوم چالیس برس سے اس آگ میں جل رہی ہے۔ اگر اس آگ کی سَمْت صحیح ہوتی تو یہ شہر اس وقت پورے ملک پر راج کرتا۔ یہاں سے نکلنے والا ہر فرد یقینا ایک ایسا پارس پتھر ہوتا جو جسے لگتا اسے کندن بنا دیتا۔ اِسے اُلجھایا گیا۔ اور کچھ یہ مزید خود ہی اُلجھ گئے۔ ہجرت ان کے آبا واجداد نے کی تھی، اس کے گن گاتے رہے۔ ماضی سے عشق نے غالب کی طرح نکما کرڈالا۔ تساہل اور غلط انتخاب پر ڈٹے رہے۔ الطاف حسین جیسے شخص کو اپنا لیڈر بنایا۔
جہانزیب راضی میرا دوست ہے۔ ایک دن میں نے اس سے کہا کہ یار یہ تو بتائو کہ اس شہر میں باہر سے لوگ آتے ہیں، کماتے ہیں۔ گھر بناتے ہیں۔ گھر سے گھر بناتے ہیں۔ اپنے شہر بھی مال وزر بھیجتے ہیں لیکن یہاں کا رہنے والا باشندہ اب بھی کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
آپ جہانزیب کا جواب سنیں… اس نے کہا کہ اس قوم کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ہجرت کی تھکن نہیں اُتر رہی ہے۔ جس دن یہ تھکن اُتر جائے گی۔ گھر بھی بن جائیں گے اور شادیاں بھی وقت پر کرلیں گے۔
کہنے لگا کہ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ محنتی نہیں ہیں۔ صرف نو سے پانچ بجے تک کام کریں گے اس کے سوا کسی چیز کا نہیں سوچیں گے۔ کاروبار سے زیادہ نوکر لگنے کو ترجیح دیں گے اور اسی بنیاد پر لڑکے کو لڑکی کا رشتہ بھی ملے گا۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس قوم کی ذرا نفسیات کا جائزہ لیں کہ الطاف حسین اِن کا لیڈر ہے۔ الطاف حسین سے پچاس فی صد کم صلاحیت کا فرد بھی اگر ان کا لیڈر ہوتا تو آج اس قوم کو نجانے کہاں پہنچا دیتا۔
حقیقت یہ ہے کہ الطاف حسین نے اس قوم کا جس طرح استعمال کیا وہ یقینا بذات خود ایک ہنر ہے۔ اتنا کچھ سامنے آنے کے بعد بھی الطاف حسین کے چاہنے والے آپ کو اس شہر میں بے شمار نظر آئیں گے۔ حتیٰ کہ فیس بک پر اب بھی الطاف حسین کے اقوال زرّیں نشر ہوتے رہتے ہیں۔
وقت کروٹیں بدل رہا ہے۔ لیکن کیا حالات تبدیل ہوں گے۔ کیا یہ شہر اپنے اصل کی طرف لوٹے گا۔ کیا سلجھے اور سمجھ دار لوگ اس شہر کے ایوانوں میں پہنچ پائیں گے۔ یا بولی ووڈ اسٹائل کے ولن پیدا کرنے والی ایم کیو ایم کا مہاجر کارڈ زندہ رہے گا۔
اتنے برس اس شہر میں رہنے کے بعد اب یہ شہر ہم میں حلول کر گیا ہے۔ آپ اس شہر کو ہم سے جدا نہیں کرسکتے۔ اگرچہ ہم اُردو بولنے والوں میں شمار نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود اُردو اور یہ شہر ہمارے وجود کا حصہ ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ اس شہر میں آنے والے لوگ اپنے ناموں میں دہلوی، لکھنوی، کوہستانی، افغانی وغیرہ لکھنا نہیں بھولتے۔ یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ انسان جس زمین پر برسوں سے آباد ہو، اتنی جلدی اس کی محبت تھوڑی کم ہوتی ہے۔ دہلی، لکھنو یا مرادآباد سے آنے والا ہر فرد اپنے دل میں اس جگہ کی کسک بہرحال رکھتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص پنجاب یا خیبر پختون خوا سے اس شہر میں آیا ہو لیکن اس شہر کی تمام محبتوں کے باوجود وہ اپنے اصل جائے پیدائش کے لیے اپنے دل میں محبت موجزن رکھتا ہے۔ اس محبت کو وہ اپنے لیے قرض سمجھتا ہے اور اپنے تئیں اس شہر سے محبت کا دَم بھی بھرتا ہے۔ اس کا یہ عمل کیا ہے؟ اس کا اندازہ شاید اسے بھی نہیں۔
حَرفِ آخر یہ کہ تھکن کی چادر کو اَوڑھنی بنانے کے بجائے اسے اپنا بادبان بنائیے اور اپنا جہاز تیز رفتار سے آگے بڑھائیے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور آپ کی عقل پر ہاتھ رکھ دے جیسے لندن والے بھائی رکھ چکے ہیں۔