جس بات کا اندازہ تھا عین اس کے مطابق وفاق اور صوبے نے کھیل شروع کردیا۔ کراچی کے نام پر ایک دوسرے پر الزامات اور دعوے اس کام میں دونوںماہر ہیں چنانچہ وفاق نے دعویٰ کیا کہ کراچی پیکیج میں 62فیصد حصہ ہمارا ہے اور سندھ نے فوراً جواب دیا کہ دعویٰ غلط ہے ہمارا حصہ زیادہ ہے۔ اسد عمر صاحب نے وفاق کا حصہ 62فیصد قرار دیا تھا اس پر سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ وفاق کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ دونوں حکمرانوں کے ترجمانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ جس پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے کراچی کو وہ دینا شروع کریں۔ بعد میں لڑتے رہیں کہ کس کا حصہ زیادہ ہے۔ کم ازکم اس بات پر تو دونوں متفق تھے کہ کراچی کو 11سو ارب روپے کا پیکیج دینا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے ۔ جس کا یقین سنجیدہ حلقے پہلے ہی ظاہر کرچکے تھے کہ ان کو ایک پیسہ بھی کراچی کو نہیں دینا ۔ اصل جنگ فنڈز کے کنٹرول کی ہے۔ اس لیے تین سال میں منصوبے مکمل کرنے اور فنڈز دینے کی بات کی گئی ہے۔ کسی معاملے میں حکمرانوں کی نیت درست نہیں لگتی۔ بلدیاتی حکومتوں کے خاتمے کے ساتھ ہی فنڈز دینے کا اعلان۔ اب مردم شماری کے بغیر بلدیاتی انتخابات ناممکن قرار دینے کی پی پی کی منطق، گویا ایڈمنسٹریٹرزبٹھا کر کئی برس کے لیے انتخابات کو بھول جائو۔ یہ شو شا بھی اس لیے چھوڑا گیا ہے کہ اگلے دن سے اس پر بحث کا آغاز ہوجائے اور لوگ اصل بات کو بھول جائیں گے۔ حکومت کی جانب سے اب تک ایڈمنسٹریٹرز تعینات نہیں ہوئے جس کی وجہ سے بلدیاتی امور ٹھپ پڑے ہوئے ہیں۔ اصل معاملہ ایڈمنسٹریٹر نہیں ہے۔ وفاق اور صوبے کی جنگ ہے دونوں فنڈز پر کنٹرول چاہتے ہیں، صوبائی حکومت کے اندر اپنے ہی وزرا کے درمیان اختلاف چل رہا ہے وفاق کے اونٹ کو ابھی تک خیمے میں سرگھسانے کا موقع نہیں مل رہا، اور اسی لیے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر اور فنڈز کا اجرا رکا ہوا ہے۔ ایڈ منسٹریٹرز کا تقرر محض ایک منصب پر تقرر نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی پیکیج پر عملدرآمد ہو سکے گا۔وفاق اور صوبے کی سنجیدگی اکا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں کو معلوم ہے کہ کراچی کے لوگوں کو فوری ریلیف کی ضرورت ہے لیکن انہوں نے فوری ریلیف کے لیے کوئی منصوبہ نہیں رکھا ہے ۔ اس کے بعد بھی کراچی کی محبت کے دعوے ہیں ۔ دوسری طرف کراچی کو لوٹ اور نچوڑ کر کے الیکٹرک مالکان فرار کے لیے تیاریاں کررہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے توجہ دلائی ہے کہ حکومت ان مالکان کی فرار کی راہ ہموار کررہی ہے۔ اس سے خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ پڑے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فیول ایڈجسٹمنٹ، میٹر رینٹ کالا بیگ اور مختلف مدات میں 2 سو ارب روپے لوٹے گئے ہیں۔ یہ رقم عوام کو واپس دلوائی جائے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس کا موقع نہیں آنے دے گی اور کے الیکٹرک صاف بچ نکلے گی۔ لیکن اس کام میں بھی وفاق اور صوبے بالکل تیار نظر نہیں آتے۔ ورنہ کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لینے کا جواز بھی موجود ہے اور اب تو حکومت کی ذمے داری ہے کہ ادارے کو تحویل میں لیا جائے، لیکن اس میں بھی وفاق اور صوبے کی حکومتیں دعوئوں کی سیاست میں مصروف ہیں۔ عوام کو تو اب یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ یہ پیکیج وغیرہ محض رسمی اعلان اور اخباری خبروں کے لیے تھے۔ اب اگلا مرحلہ الیکشن ہیں۔ عوام انتخابات میں دعوئوں کی سیاست کرنے والوں اور کراچی کو تباہ کرنے والوں کو مسترد کر دیں۔