فضائلِ اہلِ بیتِ اَطہارؓ (حصہ اول)

458

اسلام میں تمام دینی عظمتوں، رفعتوں، عنداللہ قُربتوں اور محبوبیت ومقبولیت کا مرکز ومحور سید نا محمد رّسول اللہ ؐ کی ذاتِ گرامی ہے، جس کو جتنی زیادہ آپ سے قربت ہے، نسبت ہے، محبت ہے اور اطاعت واتباع کا تعلق ہے، وہ اسلام میں اتنا ہی عظیم المرتبت قرار پاتا ہے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’میرے سبب اور نسب کے سوا ہر نسب اور سبب قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا (یعنی کچھ کام نہیں آئے گا)، (مصنف عبدالرزاق)‘‘۔ نسب کے معنی تو واضح ہیں اور سبب سے مراد آپؐ کے ساتھ مصاہرت کا رشتہ ہے، اس کی مزید تشریح اس حدیثِ مبارک سے ہوتی ہے: ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: ہر نسب اور مصاہرت (In laws) کا رشتہ قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا (یعنی کوئی کام نہیں آئے گا) سوائے میرے نسب اور سسرالی رشتے کے، (المعجم الاوسط)‘‘۔
گزشتہ دنوں ہم نے ’’مقامِ صحابہ‘‘ پر قرآن وسنت کی روشنی میں گفتگو کی تھی، اہلبیت میں سے جنہیں شرفِ صحابیت حاصل ہے، وہ اُن تمام فضیلتوں کے حق دار ہیں اور اہلِ بیتِ نبوت ہونے کا شرف اس سے سِوا ہے۔ قرآنِ مجید میں ’’اہل‘‘ اور ’’آل‘‘ کے کلمات آئے ہیں، بالعموم یہ دونوں کلمات ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔ مفسرینِ کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’آل‘‘ شرفِ نسبت کے لیے بولا جاتا ہے، خواہ یہ شرف محض دُنیاوی اعتبار سے ہو یا دینی اور اُخروی اعتبار سے، آج کل بھی ’’آلِ سعود‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ قرآن میں ’’آل‘‘ محض پیروکاروں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو چیر دیا، پھر ہم نے تم کو نجات دی اور ہم نے ’’آلِ فرعون‘‘ کو غرق کردیا اور تم دیکھ رہے تھے، (البقرہ: 50)‘‘۔ سب کو معلوم ہے کہ فرعون کی اولاد نہیں تھی اور یہاں آلِ فرعون سے مراد فرعون اور اس کے پیروکار ہیں۔ سلمان فارسیؓ اسلام لائے، تو وہ سرزمین عرب میں اجنبی تھے، فارس کے رہنے والے تھے، مہاجرین نے کہا: سلمان ہم سے ہیں، انصار نے کہا: سلمان ہم سے ہیں، تو رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہیں، (تاریخ طبری)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اہل بیت ِ رسولؐ کی فضیلت کو قرآن مجید کے ان کلماتِ طیبات میں بیان فرمایا: ’’اے اہل بیتِ رسول! اللہ یہی ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب پاکیزہ بنادے، (الاحزاب: 33)‘‘۔ اس کا مصداق سیدنا علیؓ وسیدہ فاطمۃ الزھراءؓ اور ان کی اولادِ اَمجاد بدرجۂ اَتَمّ ہیں، لیکن اہل بیت کے اطلاق میں رسول اللہؐ کی ازواجِ مُطَہَّرات اُمَّہات المومنینؓ بھی شامل ہیں۔ قرآن مجید میں صرف بیوی پر بھی اہلبیت کا اطلاق کیا گیا ہے: ’’(جب فرشتوں نے بڑھاپے میں سیدہ سارہؑ کو سیدنا اسحاقؑ کی ولادت کی بشارت سنائی، تو وہ اس پر سراپا حیرت بن گئیں اور کہا:) ہائے افسوس! کیا میں بچہ جنوں گی، حالانکہ میں بوڑھی ہوں اور یہ میرے شوہر (بھی) بوڑھے ہیں، بے شک یہ عجیب بات ہے، فرشتوں نے کہا: کیا آپ اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہیں، اے اہلبیتِ (ابراہیم!) آپ پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، (ہود: 73)‘‘۔ اس وقت تک سیدہ سارہ سے کوئی اولاد نہ تھی، تو قرآن نے صرف بیوی پر اہلبیت کا اطلاق فرمایا۔ اسی طرح سیدنا موسیٰؑ اپنی بیوی کو لے کر کنعان سے مصر کی طرف جارہے ہیں، انہیں دور سے آگ نظر آئی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جب انہوں نے آگ کو دیکھا، تو اپنے اہل سے کہا: (یہاں) ٹھیرو، بیشک میں نے آگ دیکھی ہے، شاید میں اس سے تمہارے پاس کوئی انگارہ لے آؤں یا میں آگ سے راستے کی کوئی نشانی پاؤں، (طٰہٰ: 10)‘‘۔
’’سیدنا ابوبکرہ بیان کرتے ہیں: میں نے سنا: نبی کریمؐ منبر پر ارشاد فرما رہے تھے اور حسنؓ آپؐ کے پہلو میں تھے، آپ ایک بار لوگوں کی طرف دیکھتے اور دوسری بار حسنؓ کی طرف دیکھتے اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سیّد ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا، (بخاری)‘‘۔ ’’اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ انہیں اور سیدنا حسنؓ کو پکڑ کر یہ دعا کرتے تھے: اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما، (بخاری)‘‘، ’’انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: (لعین) عبید اللہ بن زیاد کے پاس سیدنا حسین بن علیؓ کا سرِ مبارک ایک طشت میں لایا گیا، وہ اس کو لکڑی سے کریدنے لگا، اس نے آپ کے حُسن کے متعلق کوئی بات کہی، سیدنا اَنس نے کہا: وہ سب سے زیادہ رسول اللہؐ کے مشابہ تھے اور آپ کے بالوں میں سیاہی مائل خضاب لگا ہوا تھا، (بخاری)‘‘، ’’براء بن عازب بیان کرتے ہیں: میں نے نبیؐ کو دیکھا، جبکہ سیدنا حسن بن علیؓ آپ کے کندھے پر سوار تھے اور آپ دعا کرر ہے تھے: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، سو تو بھی اس سے محبت فرما، (بخاری)‘‘، عقبہ بن حارث بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا ابوبکرؓ کو دیکھا، وہ سیدنا حسنؓ کو اٹھائے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے: ان پر میرے والد فدا ہوں، یہ نبیؐ کے مشابہ ہیں، علی کے مشابہ نہیں ہیں اور سیدنا علیؓ تبسم فرمارہے تھے، (بخاری)‘‘۔
سیدنا ابوبکرؓ نے کہا: سیدنا محمدؐ کی رضا آپ کے اہلِ بیت (کے ساتھ محبت) میں تلاش کرو، (بخاری)‘‘، ’’سیدنا انسؓ نے کہا: سیدنا حسینؓ سے زیادہ کوئی شخص نبیؐ سے مشابہ نہیں تھا، (بخاری)‘‘، ’’ابن ابی نُعم نے سیدنا عبداللہ بن عمر سے پوچھا: اگر مُحرم (حالتِ احرام میں شخص) مکھی مارلے تو اس کا کفارہ کیا ہے، سیدنا ابن عمرؓ نے کہا: اہلِ عراق مکھی کو مارنے کا حکم تو پوچھ رہے ہیں، حالانکہ یہ لوگ رسول اللہؐ کے نواسے کو قتل کر چکے ہیں اور نبیؐ نے ان دونواسوں کے متعلق فرمایا تھا: یہ دونوں دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں، (بخاری)‘‘، ’’سیدنا ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، (ترمذی)‘‘، ’’اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں: میں ایک رات کسی کام سے نبی ؐ کے پاس گیا، نبیؐ تشریف لائے، اس وقت آپ نے کچھ اٹھایا ہوا تھا جس کا مجھے پتا نہیں چلا، جب میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو میں نے پوچھا: یہ کیا چیز تھی جس کو آپ نے اٹھایا ہوا تھا، تو آپ نے کھول کر دکھایا، پس وہ آپ کی گود میں سیدنا حسن اور حسینؓ تھے، آپ نے فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، (ترمذی)‘‘۔
سیدہ سلمیٰؓ بیان کرتی ہیں: میں ام المومنین سیدہ ام سلمہؓ کے پاس گئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کو کیا چیز رلا رہی ہے، تو انہوں نے بتایا کہ میں نے ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ رسول اللہؐ کے سر اور ڈاڑھی پر گردوغبار تھا، میں نے پوچھا: یارسول اللہ! کیا ہوا ہے، آپ نے فرمایا: میں ابھی حسین کے قتل کی جگہ پر موجود تھا، (ترمذی)‘‘۔
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ سے پوچھا گیا: آپ کو اپنے اہلِ بیت میں کون زیادہ محبوب ہے، آپ نے فرمایا: حسن اور حسین اور آپ سیدہ فاطمہؓ سے فرماتے تھے: میرے دونوں بیٹوں کو بلائو، پھر آپ ان کو سونگھتے تھے اور ان کو اپنے ساتھ لپٹاتے تھے، (ترمذی)‘‘، ’’سیدنا بریدہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ ہمیں خطبہ دے رہے تھے، اچانک حضراتِ حسن اور حسینؓ آئے، وہ دو سرخ قمیصیں پہنے ہوئے تھے اور لڑکھڑاتے ہوئے چل رہے تھے، رسول اللہ ؐ نے اپنا خطبہ موقوف فرمایا، منبر سے اتر کر ان کو اٹھایا، اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: ’’تمہارے مال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہیں، (التغابن: 15)‘‘، میں نے ان بچوں کو لڑکھڑا کر چلتے ہوئے دیکھا تو میں صبر نہ کرسکا حتیٰ کہ میں نے خطبہ منقطع کیا اور ان کو اٹھایا، (ترمذی)‘‘، ’’یَعلیٰ بن مُرَّہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت رکھے جو حسین سے محبت رکھے، حسین میرے نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے، (ترمذی)‘‘، ’’سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں: حسن سینے سے لے کر سر تک سب سے زیادہ رسول اللہؐ سے مشابہ تھے اور حسین رسول اللہؐ کے نچلے حصے کے مشابہ تھے، (ترمذی)‘‘۔
’’سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں: مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تم کب رسول اللہؐ سے ملے تھے، میں نے کہا: میں فلاں فلاں وقت سے رسول اللہؐ سے نہیں ملا، تو انہوں نے مجھے برا کہا، میں نے کہا: مجھے اجازت دیں کہ میں رسول اللہؐ کے پاس جائوں اور آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھوں اور آپ سے یہ سوال کروں کہ آپ میرے لیے اور آپ کے لیے مغفرت کی دعا کریں، سو میں نبیؐ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، آپ نے نماز پڑھائی حتیٰ کہ عشا کی نماز پڑھائی، پھر آپ واپس گئے، میں آپ کے پیچھے پیچھے گیا، آپ نے میری آواز سنی تو پوچھا: یہ کون ہے، حذیفہ ہے، میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے پوچھا: تمہیں کیا کام ہے، اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمہاری ماں کی مغفرت فرمائے، پھر آپ ؐنے فرمایا: یہ ایک فرشتہ ہے جو آج رات سے پہلے زمین پر نازل نہیں ہوا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے کی اجازت لی اور مجھے یہ بشارت دی ہے کہ فاطمہ اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن وحسین اہلِ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، (ترمذی)‘‘، ’’سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ؐ نے سیدنا حسن بن علیؓ کو اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا، ایک شخص نے دیکھ کر کہا: اے لڑکے! تم کتنی عمدہ سواری پر سوار ہو، تو نبیؐ نے فرمایا: اور یہ سوار بھی تو بہت عمدہ ہے، (ترمذی)‘‘۔ (جاری ہے)