1948میں فریڈ رک برائون نے لکھا تھا: زمین پر آخری آدمی کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا، دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔
رون اسمتھ نے دستک knock کو lock سے تبدیل کردیا۔ جملہ یوں ہوگیا:
زمین پر آخری آدمی کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا، دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔
بحیرہ عرب کے ساحل پر آباد عظیم الجثہ شہر کے معاملات پر بھی ایک طویل عرصے سے تالا پڑا ہوا ہے۔ اس دوران کمرے کے اندر بیٹھے مکینوں کی وہ حالت ہوگئی کہ دیکھیں تو آنکھوں میں گرم پانی تیرتا محسوس ہوتا ہے۔ کراچی کے رہنے والے رقت انگیز مناظر کی اتنی طویل سیریز سے گزر چکے ہیں کہ وہ احتجاج کرنا ہی بھول گئے۔ وہ شہر جہاں سے اٹھتے احتجاج حکومتوں کو بہالے جاتے تھے، ٹوٹی سڑکوں، بہتے نالوں، اُبلتے گٹروں اور گندگی کے ڈھیروں میں منجمد ہوگیا ہے۔ کراچی ایک بار پھر کلانچی بن گیا۔ مچھیروں کی بستی۔ جس کے ایک مچھیرے ’’گھاتو‘‘ پر شاہ لطیف نے ایک نظم لکھی تھی۔ گھاتو اپنے بھائیوںکے ساتھ رہتا تھا۔ وہ دن بھر سمندر میں مچھلیاں پکڑتے اور شام پڑے گھر لوٹتے۔ سمندر میں کہیں سے مگرمچھ آنکلا اور پھر ایک دن گھاتو گھر نہیں آیا۔ نظم کچھ یوںآغاز تھی:
گھاتو گھر نہیں آیا
شام پڑ گئی اور پھر رات
گھاتو گھر نہیں آیا
کراچی اور اس کے شہری بھی حکومتوں کی نظر میں کہیں غائب ہیں یا پھر ایسے کمرے میں قید، جس کے باہر تالا پڑا ہوا ہے۔ کراچی کی طوفانی بارشوں سے لگتا ہے زنگ زدہ تالا ٹوٹ کر کہیں بہہ گیا ہے۔ جِسے دیکھیں کراچی کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کرم فرمایا بارشوں کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ کو ٹیلی فون کرکے اہل کراچی کی خیریت دریافت کی۔ ورنہ دو برس سے وہ ان مسئلوں میں گھرے ہوئے تھے ’’اُس سے ہاتھ نہیں ملائوں گا، اِس سے سلام دعا نہیں کروں گا‘‘۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف بھی کراچی کی بارشوں سے یکدم پچھلی نشست سے ڈرائیونگ سیٹ پر آگئے۔ ایک طرف انہوں نے کراچی میں موسلا دھار تقریریں کیں تو دوسری طرف آصف علی زرداری سے ملنے بلاول ہائوس بھی چلے گئے۔ یہ ملاقات اور مریم نواز کی فعالیت دیکھیں کب کسی گرینڈ الائنس کی صورت اختیار کرتی ہے۔ ایسا ہوا تو اس کا کریڈٹ کراچی کی بارشوں کو جائے گا۔
سپہ سالار اعظم جنرل قمر جاوید باجوہ بھی دو روز کے لیے اجڑے دیار کو رونق بخش گئے۔ کراچی کے فضائی جائزے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کراچی کا مسئلہ وسائل کی دستیابی نہیں ترجیحات کو درست کرنا ہے۔ ترجیحات کا درست تعین کراچی کے باب میں وہ بنیادی مسئلہ ہے ہمارے تین مارشل لا ایڈ منسٹریٹرز بھی جس سے غافل رہے ہیں۔ جرنیل سپاہی ایوب خاں ہوں، نازل جرنیل ضیا الحق ہوں یا پھر گریٹ کمانڈو جنرل پرویز مشرف ہوں تیس برس تک حکومت کرنے والے ان جنرلوں کی ترجیحات میں کراچی کہیں موجود نہیں تھا۔ انہوں نے کراچی کی معاشی اہمیت کو اہمیت دی اور نہ کراچی کی وسعتوں کے اعتبار سے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر پر زور دیا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں ایم کیو ایم کے تسلط کا آغاز ہوا۔ جنرل پرویز مشرف ایم کیو ایم کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھتے تھے۔ ان ادوار میں اہل کراچی کو ایم کیو ایم نے گولیوں کی زد پر رکھا۔ مارشل لا ایڈ منسٹریٹر ہوں یا سیاسی حکومتیں سب فاصلے پر کھڑے متحارب فریقوں کو دیکھتے اور اپنی حکومت کے لیے ان سے طاقت کشید کرتے رہے۔ یہ فوجی آمر ہی تھے جن کی آشیرباد سے ایم کیو ایم نے کراچی کے شہریوں کو وسائل اور حقوق سے محروم رکھا۔ وسائل اور حقوق کی اس دور میں کراچی کے شہریوں کو خاص پروا بھی نہیں تھی۔ گولیوں سے بچ رہنا ہی اللہ کی بڑی نعمت تھا۔
پیپلز پارٹی کی دوعشروں سے سندھ پر حکومت ہے لیکن کراچی کبھی پیپلز پارٹی کی توجہ حاصل نہ کرسکا۔ صورتحال یہ ہے کہ کراچی کے وہ علاقے جو پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں سب سے زیادہ پسماندہ، وسائل سے محروم اور جرائم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی توجہ سندھ کے دیہی علاقوں پر ہے تاکہ اسے اقتدار میں آنے کے لیے ووٹ ملتے رہیں۔ بھٹو جہاں آج بھی ایک رومانس کا نام ہے لیکن ان علاقوں کو بھی پیپلز پارٹی سے کچھ فیض نہ پہنچا۔ یہ علاقے مردوں کے ٹیلوں سے کچھ ادھر ہی سانس لے رہے ہیں۔
ایک عرصہ ہوا کراچی مرچکا ہے۔ اس کی لاش گلتی سڑتی رہی کسی نے توجہ نہیں دی۔ پر اب یہ لاش کچھ زیادہ ہی بدبو دے رہی ہے۔ بہت زیادہ گند پھیلا رہی ہے۔ اس لیے سب دوڑے چلے آرہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے عظیم الشان کامیابی ملنے کے باوجود دو برس تک کراچی کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کیا۔ اب وہ بھی گیارہ سو ارب کے پیکیج کے ساتھ ایک دن کے لیے کراچی کو شرف ملاقات بخش گئے۔ گزشتہ برس مارچ میں جب وہ کراچی آئے تھے 162ارب کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کر گئے تھے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی کراچی کے لیے 800ارب کے پیکیج کا اعلان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے جون میں صوبائی بجٹ میں کراچی کے لیے 26ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا سعودی بھائیوں کو ایک ارب ڈالر واپس دینے کے لیے تو چین سے قرضہ لینا پڑا۔ یہ اتنی بڑی رقوم کہاں سے آئیں گی۔ یہ بھی یاد رہے بجٹ 2020-21 میں ملک میں ترقیاتی مقاصد کے لیے 650 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ کہا جا رہا ہے وزیراعظم کا تازہ کراچی پیکیج بھنگ کی کاشت کے بعد تیار کیا گیا ہے۔
یہ سب جمہوریت کے ڈرامے ہیں۔ پورے صوبہ سندھ کا مالی سال 2020-21 کا بجٹ 1240 ارب روپے پیش کیا گیا تھا۔ جس میں صوبائی ترقیاتی بجٹ 155 ارب روپے اور ضلعی ترقیاتی بجٹ 15ارب روپے اعلان کیا گیا تھا۔ اب وفاقی حکومت صرف کراچی کے لیے 1100ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کا اعلان کررہی ہے۔ ان ہی بارشوں سے اندرون سندھ بھی بہت نقصان ہوا ہے لیکن چونکہ وہاں سے وفاقی حکومت کو کوئی سیٹ نہیں ملتی اس لیے وہاں کے لیے کوئی پیکیج اعلان نہیں کیا گیا۔ جب کہ کراچی سے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی چودہ سیٹیں ملی تھیں۔ جمہوریت میں ایسے مسائل کے لیے آخری حل مقامی حکومتیں تجویز کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی میں مقامی حکومت کو مالی اور سیاسی اختیارات دینا نہیں چاہتی۔ ایک وجہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت این ایف سی ایوارڈ میں نقب لگانے کا جو ارادہ رکھتی ہے اس کے بعد صوبے کے مالی وسائل سمٹ جائیں گے دوسرے کراچی سے پیپلز پارٹی کو ووٹ بھی نہیں ملتے۔ پھر صوبائی حکومت نے کراچی کے لیے 800ارب کے پیکیج کا جو عندیہ دیا ہے وہ کیا ہے۔ جواب ہے ڈراما در ڈراما۔ وفاقی ریاست کا ڈھانچہ ریاست کو صوبائی اور شہری سطح پر چھوٹے چھوٹے سیاسی اور معاشرتی گروہوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ وفاقی، صوبائی اور شہری سطحوں پر مختلف پارٹیوں کی حکومت کی وجہ سے ایک تباہ کن کشمکش جنم لیتی ہے جس کا نتیجہ کراچی جیسا نکلتا ہے۔ جہاں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومت کچھ کام کرنے کے بجائے عین اس وقت ایک دوسرے کو الزام دے رہی تھیں جب کراچی ڈوب رہا تھا۔ چند دنوں بعد کراچی میں بارش سے پیدا شدہ صورتحال نارمل ہونا شروع ہوجائے گی۔ کسی کو 1100ارب پیکیج کا لطیفہ یاد بھی نہیں رہے گا۔ نہ حکومت کو نہ عوام کو۔ معیشت دم توڑ رہی ہے اور چلے ہیں 1100ارب کا پیکیج دینے۔ بیوقوف بنانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔