اسرائیلی ہیکل اول مل گیا ’’انتفاضہ سوم‘‘ کا خدشہ

1175

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ امریکا اور اسرائیل کو ’’امن معاہدے‘‘ کی اس قدر جلدی کیوں ہے کہ امریکا نے دوہفتوں کے دوران دو اعلیٰ سطحی وفود عرب ممالک کے دورے پر بھیج دیے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت فوری طور پر ’’ہیکل ِ سلمانی‘‘ کی تعمیر شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ سے پیوستہ ہفتے کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ ’’مائیک پومپیو‘‘ نے عرب اور شمالی افریقا کا طوفانی دورہ کیا۔ اس کے بعد جیریڈ کشنر بھی عرب ملکوں دورے پر گئے، اس دورے میں بڑے ڈرامائی انداز میں جیریڈ کشنر امارات کے لیے ’’امن فلائٹ‘‘ لے کر اسرائیل سے روانہ ہوئے، روانگی سے قبل انہوں نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے سامنے کھڑے ہو کر دعا کی ہے کہ: ’’مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان امن قائم ہو جائے‘‘۔ لیکن جیریڈ کشنر کا پورا دورہ ناکام ہوا۔ اس دورے میں جیریڈ کشنر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان امن کی بات کرتے رہے لیکن اس کے برعکس وہ ’’ہیکل سلمانی کی تعمیر کے منصوبے‘‘ پر عمل کرتے رہے جس کا راز اب کھل کر سامنے آگیا ہے۔ جو اسرائیلی اخبار HAARETZ نے اس طرح کھول دیا کہ:
Ruins from first Temple-period Palace found iN Southern Jerusalem
جیریڈ کشنر کے روانہ ہوتے ہی ہیکل سلیمانی یا ہیکل اول یروشلم کی دریافت کی باتیں شروع ہو گئیں۔ یہ مل گیا، ہیکل سلیمانی یا ہیکل اول یروشلم کی کہانی اس لیے شروع کی گئی کہ: ’’تورات‘‘ کے مطابق ہیکل سلیمانی یا ہیکل اول یروشلم کی تعمیر کے 587 قبل مسیح کے بعد نبوکد نضر (بخت نصر) کے تباہ کرنے سے پہلے باستانی یروشلم کے بیت ہمقدش میں واقع تھا اور آگے چل کر ہیکل دوم نے چھٹی صدی قبل مسیح میں اس کی جگہ لی تھی۔ عبرانی بائبل بیان کرتا ہے کہ ہیکل متحدہ مملکت اسرائیل و یہوداہ کے بادشاہ سلیمان کے دور حکومت میں تعمیر کر کے یہوداہ کے لیے وقف کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تابوت سکینہ اسی میں رکھا جاتا تھا۔ اس کی فوری تشہیر شروع کر دی کہ ہیکل سلیمانی یا ہیکل اول یروشلم کا پتا چل گیا ہے اس سلسلے میں ٹائم آف اسرائیل کا کہنا ہے کہ:
2,500-year-old seals may show Jews rebuilding Jerusalem after 1st Temple exile
اس طرح پورے اسرائیل میں اس بات کا شور مچا ہے کہ ہیکل اول یروشلم مل گیا اور اس کی تعمیر کرنی ہے۔ یہ ایک اور فساد امریکا اور اسرائیل کے امن کے معاہدے میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ برسوں جس یروشلم میں سرنگ کے کھودے جانے کی باتیں ہورہی تھیں اب اس سرنگ کی جو نئی تصاویر ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہیں اس سرنگ کے اندر بڑی بڑی روڈ اور گھر اور پختہ مکانات بنے ہوئے ہیں۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ اس میں 2600 سال قبل، 587 قبل مسیح جسے نبو کد نضر نے تباہ کردیا تھا وہ دوبارہ مل گیا ہے۔ اس کی یہودیوں میں کیا اہمیت ہے۔
تابوت سکینہ کے بارے میں ’’قرآن میں بھی ارشاد ہے‘‘، ان لوگوں سے ان کے نبی نے کہا کہ طالوت کے بادشاہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق واپس آ جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین قلب کا سامان ہے اور وہ کچھ اشیاء بھی ہیں جو موسیٰ اور ہارون چھوڑ گئے تھے اس کو فرشتے اٹھا کر لائیں گے اور بلاشبہ اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو‘‘۔
سیدنا داؤد نے اللہ کے حکم سے خدا کا گھر بنانا شروع کیا جو عین اس مقام پر ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ موجود ہے۔ لیکن یہ عالی شان گھر آپ کے بیٹے سلیمانؑ کے عہد میں مکمل ہوا اور اس کو ہیکل سلیمانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس گھر کی تعمیر کے بعد تابوت سکینہ کو یہاں پورے احترام کے ساتھ رکھ دیا گیا۔ اور اس طرح یہ مقام یہودیوں کا مقدس ترین مقام بن گیا۔ بعد کے زمانے میں ہونے والی جنگوں نے اس ہیکل کو بہت نقصان پہنچایا لیکن بابل کے بادشاہ بخت نصر (نبو کد نضر) نے اس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اس کو آگ لگا دی، وہ یہاں سے مال غنیمت کے ساتھ تابوت سکینہ بھی لے گیا تھا۔ اس تباہی کے نتیجے میں آج اصلی ہیکل کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یہودیوں کا یہاں سے مکمل صفایا کرنے کا حکم دیا تھا کہ ’’یہودی یہاں سے نکلتے وقت عجلت میں تھے ان کے تین گروپ بن گئے تھے ایک یورپ دوسرا ’یثرب مدینہ‘ اور تیسرا گروپ افغانستان کی جانب روانہ ہوا۔ اب اسرائیلی اخبارات بتا رہے ہیں کہ تباہ شدہ سوختہ ہیکل کے نشانات بھی ان کو مل گئے۔ یہی فساد امریکا اسرئیل امن معاہدے میں چھپا ہوا ہے۔
ہم نے اپنے 4ستمبر کو شائع ہونے والے کالم میں لکھا تھا کہ: وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے بیروت آمد کے بعد جہادیوں سے رابطے شروع کر دیے۔ اردوان نے انہیں ترکی شہریت بھی دے رکھی ہے۔ حماس رہنما نے فلسطینیوں سے خطاب میں کہا کہ ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن معاہدے کے بعد فلسطینی قوم کی مزاحمت میں مزید تیزی آئی ہے جو خوش آئند ہے‘‘۔ امریکا اور اسرئیل کے فیصلوں کا نشانہ قضیہ فلسطین اور القدس ہیں۔ ارض فلسطین پر فلسطینی قوم کے وجود کو ختم کرنے اور قضیہ فلسطین کے اسلامی، عرب اور فلسطینی تشخص کو ختم کرنے کی ’’امن معاہدے‘‘ جیسی سازشیں تیزی سے جاری ہیں۔ ان کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہے۔
جس کے بعد بیروت میں جمعرات کو فلسطینی دھڑوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد حماس کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سربراہ اور فلسطینی صدر محمود عباس کی زیر صدارت اجلاس کا انعقاد ہوا، اس میں مختلف دھڑوں کے رہنما موجود تھے۔ حماس کے اسماعیل ہنیہ نے ایک اور عسکریت پسند گروپ اسلامک جہاد کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔ وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ صدر محمود عباس کے ساتھ مذاکرات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئے اجلاس میں حماس اور اسلامک جہاد کے علاوہ آزاد اراکین شریک ہوئے 2007 کے بعد پہلی بار تمام سیاسی اور سماجی دھاروں سے تعلق رکھنے والی قیادت کا متفقہ اجلاس ’’حزب اللہ‘‘ کی میزبانی میں منعقد ہوا۔ فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے‘ اسپیکر بیروت سے بھی ملاقات کی اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اگر اسرئیل نے فساد کا سلسلہ جاری رکھا تو ’’اسماعیل ہنیہ کا کہنا درست ہو جائے گاکہ: بڑھتی ہوئی کشیدگی آخرکار مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر لے گی۔ ’’الاقصٰی انتفاضہ سوم‘‘ ہونے کا خدشہ ہے۔