این ایل ایف نے ٹھیکیداری نظام کے خلاف 12تا18ستمبرہفتہ مزدورحقوق کا اعلان کردیا

302

کراچی (اسٹاف رپورٹر)نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی نے محنت کشوں اور مزدوروں کو ان کے قانونی حقو ق کی فراہمی اور مسائل کے حل کے لیے اور مختلف صنعتی اداروں،کارخانوں اور فیکٹریوں میں لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں،مزدور وں پر ظلم واستحصال اور ٹھیکداری نظام کے خلاف 12تا18ستمبر ”ہفتہ مزدورحقوق“منانے کا اعلان کیا ہے۔

جس میں لیبر ڈائریکٹریٹ پر ایک بڑے احتجاجی مظاہرے سمیت ریلیاں اور مظاہرے کیے جائیں گے اور جمعہ18ستمبر کو لیبر اسکوائر گراؤنڈ سائٹ میں مزدوروں کا ایک عظیم الشان جلسہ کیا جائے گا جس سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق خصوصی خطا ب کریں گے۔

ان خیالات کااظہار این ایل ایف کراچی کے صدر خالد خان نے جنرل سیکریٹری این ایل ایف قاسم جمال،سینئر نائب صدر صغیر احمد انصاری، نائب صدر محمد سلیم، جوائنٹ سکریٹری امیرروان کے ہمراہ بدھ کے روز ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

خالد خان نے کہاکہ نیشنل لیبرفیڈریشن پاکستان محنت کشوں کی نمائندہ تنظیم ہے جس کو انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن ILO نے پاکستان میں جن 3 بڑی فیڈریشنز کو ڈیکلیر کیاہے اس میں NLF کانام بھی شامل ہے۔

این ایل ایف نے ہمیشہ مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے اور لاک ڈاؤن کے دوران بھی جبری برطرفی اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کیا اور گرفتاریاں بھی دیں۔آئندہ بھی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

این ایل ایف کا مطالبہ ہے کہ ہرمزدورکوملازمت کا تقررنامہ جاری کیاجائے،کم ازکم اْجرت کا تعین مہنگائی کے تناسب سے کیاجائے،سندھ حکومت لیبرقوانین پر مکمل عملدرآمدکروائے،ٹھیکیداری نظام کا مکمل خاتمہ کیاجائے،تمام فیکٹریوں میں ہرور کر کا انشورنس،سوشل سیکورٹی اورEOBIمیں رجسٹریشن کروایاجائے۔

لیبرقوانین کوآسان اوراْردومیں بنایاجائے، مزدوروں کی رجسٹریشن میں EOBI،سوشل سیکورٹی اورلیبرڈیپارٹمنٹ کے ادارے جعلی گورننگ باڈی اور غیر نمائندہ سہ فریقی کمیٹیاں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

ان جعلی گورننگ باڈیوں اورسہ فریقی کمیٹیوں کوختم کرکے حقیقی مزدوروں کے نمائندوں کونمائندہ گی دی جائے، حکومت فوری طورپرتمام اداروں،صنعتوں اور ٹھیکیداروں کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کاریکارڈ کیمپوٹرائز کرائے۔

خالد خان نے مزید کہاکہ پاکستان کا محنت کش طبقہ مہنگائی،بیروزگاری کے اس دور میں بدترین حالات زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ٹھیکہ داری نظام محنت کشوں کے بنیادی حقوق کو غصب کر رہا ہے محنت کشوں کو تمام مراعات سے یکسر محروم کر دیا گیا ہے ادارے محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے سرمایہ داروں کے محافظ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

قومی ادارے حکمرانو ں کی کرپشن نااہلی لوٹ مارکی وجہ سے آج مکمل طور پر تباہی و بربادی کا شکار ہیں۔ہوزری گارمینٹس، ٹیکسٹائل،پاورلومز،ماربل سیکٹرکے شعبے سے وابستہ مزدوراپنے اپنے اداروں میں ٹریڈیونینزنہیں بناسکتے۔

ان مزدوروں سے ان کا یہ قانونی حق چھینناILO کے کنونشن 87 اور98 کی خلاف ورزی کے ساتھ یورپی یونین سے کئے گئے معاہدے GSP پلس کے ایگریمنٹ اورآئین پاکستان آرٹیکل17 کی بھی خلاف ورزی ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف مزدوروں کے قانونی حقوق متاثرہورہے ہیں بلکہ ملک کی معیشت کو بھی نقصان ہورہا ہے۔

خالد خان نے کہاکہ وزیراعظم صاحب نے حال ہی میں خود اس بات کا اقرار کیاہے کہ پاکستان میں 80 فیصدمزدوررجسٹرڈنہیں۔بلکہ ہم تویہ کہتے ہے کہ ہمارے ملک میں انفارمل سیکٹرکے مزدوروں کے رجسٹریشن کیلئے سرے سے کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔

صرف شہرکراچی میں تقریباً50 ہزارچھوٹی بڑی فیکٹریاں موجودہیں جس میں لیبرڈیپارٹمنٹ سے تقریباً12 ہزارکے لگ بھگ فیکٹریاں رجسٹرڈ ہیں۔ان اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعدادایک اندازے کے مطابق50 لاکھ سے زائدہے اوران میں سے رجسٹرڈ مزدور3 لاکھ بھی نہیں ہیں اس کی سب سے بڑی مثال ٹیکسٹائل،گارمینٹس،ہوزری،پاورلومزاورماربل سیکٹرہیں۔

ٹیکسٹائل میں سب سے بڑی مثال گل احمد ٹیکسٹائل ملزہے جس میں ایک اندازے کے مطابق 15 ہزارمزدورکام کررہے ہیں اوراس میں رجسٹرڈمزدوروں کی تعداد تقریباً500 ہیں۔

آرٹیسٹک ملزکے غالباً8 یونٹس ہیں اور تقریباً10 ہزارسے زائد مزدوراس میں کام کررہے ہیں مگررجسٹرڈمزدوروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔فارماسیوٹیکل فیکٹریوں میں تقریباً2 سے ڈھائی لاکھ مزدوروابستہ ہے اوراس میں رجسٹرڈ مزدوروں کی تعدادمشکل سے چندہزارہیں۔

اسی طرح پاورلومزاورماربل سیکٹرکے چھوٹے چھوٹے کارخانے موجودہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہیں۔ اسی طرح بیکریز،بڑے بڑے شاپنگ مالزمثلاًمیٹرو،امتیاز،چیزاپ وغیرہ میں بھی ہزاروں مزدورکام کررہے ہیں ان کابھی کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

خالد خان نے کہاکہ ہمارے ملک کا سب سے اہم مسئلہ ہے یہ ہے کہ ہمارے لیبرقوانین صرف کتابوں تک محدودہیں ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابرہے۔اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ ہمارے حکومتی اراکین کی اکثریت کارخانے دارہے اوروہ بھی نہیں چاہیں گے کہ پسے ہوئے طبقے کو اوپر لایا جائے اس لیے مزدوروں کااستحصال کرنے میں آجروں کاساتھ دیتے ہیں۔

خالد خان نے کہاکہ سندھ اسٹینڈنگ آرڈرآرڈننس (ٹرمزآف ایمپلائمنٹ) 2015 کے سیکشن 2(N) اورسندھ فیکٹر ی ایکٹ 2015 کی 2(N) واضح طور پرٹھیکیداری نظام کو ختم کردیاگیاہے۔

اگرکوئی ورکر3 مہینے مسلسل ایک جگہ کام کریں تو وہ اس ادارے کا مستقل ورکرہو گااور ٹھیکیداری نظام کیخلاف معززاعلیٰ عدالتوں کے کئی فیصلے بھی موجود ہیں۔مگراس پرعملدرآمد ایک خواب بن چکا ہے۔

ورکرزکوادارے میں کسی بھی رجسٹرڈ ٹریڈ یونین کی ممبرشپ حاصل کرنی ہوتی ہے جس کی وضاحت I.R.A 2012 کی سیکشن2 میں کی گئی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اداروں کی انتظامیہ لیبر قوانین پر عملدرآمدکرنے کے بجائے طاقت کے بل بوتے پرکنٹریکٹ اورتھرڈپارٹی کے ذریعے رکھے گئے مزدوروں کویونین ممبرشپ لینے کے ساتھ ساتھ تمام قانونی مراعات سے بھی محروم کردیتی ہے۔

یہ نہیں بلکہ اگرکوئی مزدور یونین کا ممبرشپ اختیار کرنے یااپنا قانونی حق کے بارے میں سوچتا بھی ہے تو اس کو فوری نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔خالد خان نے کہاکہ کنٹریکٹ اورٹھیکیداری نظام نے مزدورطبقہ کے معاشی حالات کو بری طرح متاثرکیا ہے سرمایہ داروں نے قانون کی غلط تشریح کرکے محنت کشوں کے قانونی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔

اس کی بھیا نک مثال علی انٹرپریز(بلدیہ فیکٹری) 259محنت کشوں کو جلا کرشہید کردیاگیااور اْن کا کوئی ریکارڈ فیکٹری میں موجود نہ تھا اگرکسی وقت فیکٹری میں مستقل مزدور 20 ہیں کنٹریکٹ یا ٹھیکیدارکے مزدور200 ہیں۔جن کو کسی قسم کی قانونی سہولت حاصل نہیں اور جو حاضری کارڈ دیا جاتا ہے۔

اس پر بھی فیکٹری یاٹھیکیدارکی کمپنی کانام بھی درج نہیں ہوتا۔جس کی وجہ سے اگر اس کی تنخواہ بھی روک لی جائے تو وہ فیکٹری یا ٹھیکیدار سے اپنی محنت کی رقم کہیں فریاد کرکے بھی وصول نہیں کرسکتا۔

صنعتی مزدوراس صورتحال سے انتہائی مایوس ہے۔ اسکو اپنا اور اپنے بچوں کا کوئی مستقبل نظرنہیں آتا۔جس کی وجہ سے وہ ملک سے بھی مایوسی کاشکارہے ایسانہ ہوکہ غریب محنت کش مایوسی کا شکار ہوکرکسی بڑے انقلاب کیلئے اْٹھ کھڑے ہوں۔