حیات بلوچ اپنی پوری برادری میں پہلا نوجوان تھا جس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ حیات بلوچ کے بھائی کا کہنا ہے کہ حیات بلوچ ہمارا سب سے لائق بھائی تھا۔ والد والدہ اور ہم سب کو توقع تھی کہ اس کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہماری مشکلات کا دور ختم ہوجائے گا۔ ہم اور ہمارے والد مزدور پیشہ ہیں۔ ہم نے ساری زندگی محنت کی ہے۔ جس وقت ہمارے بھائی کو گولیاں ماری گئیں اُس وقت بھی وہ باغ میں کام کررہا تھا، اپنے ماں باپ کے ساتھ تھا جو اس کے ساتھ کام کررہے تھے۔ وہ تو یونیورسٹی ہی میں ہوتا، کورونا کی وجہ سے چھٹیاں تھیں اور وہ والدین کے ساتھ اُن کا ہاتھ بٹانے آگیا۔ اُسے کیا معلوم تھا کہ اس کی زندگی چھین لی جائے گی۔ ماں باپ کو کیا معلوم تھا کہ اُسے ان کے سامنے خون میں نہلا دیا جائے گا۔ وہ تصویر ہی دل دہلا دینے والی تھی۔ حیات بلوچ کی ماں کے آسمان پر اُٹھے ہاتھ ربّ سے فریاد کررہے تھے۔ ماں کی آہ سے ڈرنا چاہیے۔ یہ آہ کس کو لگے گی؟ یہ بھی اللہ ہی جانے کیوں کہ ظلم ہوتے دیکھنا اور خاموش رہنا سزا دینے والے مقتدر اور انہیں مقتدر بنا کر ایوانوں میں پہچانے والے سب ہی کو اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے۔ بلوچی ہمارے بھائی ہیں ان کا خون سستا نہیں کہ یوں بے گناہ بہے اور سب اسے پانی سمجھیں۔ حیات بلوچ کی ماں کی آنکھوں کے بے بس آنسو ہماری مائوں کی آنکھوں کے آنسوئوں جیسے ہی ہیں؟۔
کوئی تو جواب دے… کہتے ہیں کہ مقدمہ درج ہوا ہے۔ جی ہاں حیات بلوچ کے قتل کے بعد مقدمہ درج ہوا، فرنٹیر کور کے اہلکار کو گرفتار کیا گیا، حیات بلوچ کے والد نے شناختی پریڈ کے دوران ملزم کو شناخت کرلیا، تین دفعہ شناختی پریڈ ہوئی اور حیات بلوچ کے والد نے تینوں دفعہ درست شناخت کیا۔ دیکھیں کہ اب مجرم کو سزا دی جاتی ہے؟۔ انسپکٹر جنرل فرنٹیر کور کا کہنا ہے کہ یہ ایک انفرادی فعل تھا۔ اور اس میں ادارے کو نہ جوڑا جائے لیکن یہ ایک فرد کا تنہا معاملہ نہیں ہے، کیا وہ لوگ جو اس کے ساتھ تھے جنہوں نے حیات کو تھپڑ مارے، ہاتھ پائوں باندھے وہ اس جرم میں شریک نہیں تھے؟۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایف سی (فرنٹیر کانسٹبلری) نے ملزم اہلکار کی پردہ داری نہیں کی ابھی واقعہ میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوا تھا کہ ملزم کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ ملزم نے اعتراف جرم کیا اور تفتیش کے دوران بتایا کہ وہ اس طرح کے بم دھماکوں میں دو دفعہ زخمی ہوچکا ہے۔ بلوچستان کے بارے میں جہاں ایسے بم دھماکوں کی اطلاعات آتی رہتی ہیں حیات بلوچ کے واقعے سے ایک دن قبل کوئٹہ کے بروری روڈ پر جھنڈے فروخت کرنے والی دکان پر دستی بم سے حملہ کیا گیا، پانچ لوگ زخمی ہوئے اور ایک دس سالہ بچہ مدثر مینگل خالق حقیقی سے جا ملا۔ یہ بچہ حافظ قرآن تھا۔ اس دن اور اس سے پہلے ہونے والے ایف سی کے کانوائے پر حملہ کرنے والے بھی حیات بلوچ کے قاتل ہیں، بلوچستان میں بم دھماکے کرنے والے بھی بلوچوں کے قاتل ہیں۔ کتنے زخمی ہوتے ہیں، جاں سے گزر جاتے ہیں۔ معصوم مدثر مینگل کیا بلوچ نہیں تھا، کالعدم بلوچ آرمی (BLA) کے ترجمان کیسے دھڑلے سے اپنے بلوچ بھائیوں کو قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات (کراچی ایکسچینج) سمیت ملک بھر میں جس قدر ہوتے ہیں وہ یہ قبول کرتے ہیں۔ کیا یہ مجرم نہیں۔ اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ان کے ہاتھ نہیں رنگے ہوئے۔ آخر کیوں اُن کے قتل پر آواز نہیں اُٹھتی۔ کیا اُن کی بہنوں اور مائوں کو دُکھ نہیں ہوتا؟ وہ ننگے پائوں شہروں شہروں قافلوں کی صورت میں سفر نہیں کرتیں۔ کوئی اُن کو نہیں پوچھتا ہے اور نہ اُن کے لیے ٹینٹ لگائے جاتے ہیں، نہ مظاہرے ہوتے ہیں اور نہ موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ سیاست دان بھی مذمت نہیں کرتے۔
ایک محسن داوڑ جنہیں صرف صوبہ بدر کیا گیا تو بلوچستان کے سیاسی رہنما اُسے غیر انسانی اور غیر جمہوری اقدام قرار دے کر چلا اُٹھے۔ آخر وہ دہشت گردوں کے بم دھماکوں اور دہشت ناک حملوں جن میں بلوچستان کے لوگ ہی زخمی ہوتے ہیں اور جان سے گزر جاتے۔ اُن کے خلاف آواز کیوں نہیں اُٹھاتے۔ محسن داوڑ کو صرف داخل نہ کرنے پر ماما قدیر بھی مذمت کرنے کے لیے منہ کھول لیتے ہیں لیکن انہیں بم دھماکے کرنے والوں کے خلاف بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی یا پھر اُن دھماکوں میں مرنے والوں کو یہ بلوچی ہی نہیں انسان بھی نہیں سمجھتے۔ ان کے خون کو خون نہیں پانی سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں ان کی مائوں بہنوں کو تو دُکھ درد ہوتا ہی نہیں ہے۔
بارودی سرنگوں اور بموں کی نذر ہونے والے سپاہیوں کی بھی ماں بہن ہوتی ہیں، اُن کے دل کے ٹکڑے اُن سے جدا ہوتے ہیں تو آنکھیں ان کی بھی خون کے آنسو روتی ہیں۔ لہٰذا یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جو لاپتا ہوتا ہے وہ بھی پاکستانی ہوتا ہے جو گولی سے مرتا ہے وہ بھی پاکستانی ہوتا ہے، جو بموں کا شکار ہوتا ہے وہ بھی پاکستانی ہوتا ہے اور جو بارودی سرنگوں کی نذر ہوجاتا ہے وہ بھی پاکستانی ہوتا ہے۔ سوچ میں فکر میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن خون کو خون سمجھنے اور آنسو کو آنسو سمجھنے میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہر اختلاف کو سلجھانے کی بصیرت ہی سیاست ہے۔ اور یہی سیاست توانائیوں کو آپس میں لڑنے مرنے سے بچاتی ہے۔ قومیں آپس میں لڑ کر ہی کمزور ہوتی ہیں اور دشمن غلبہ پالیتا ہے۔ یاد رکھیں کمزور کرکے غلام بنالینا ہی دشمن کا ہدف ہے۔