طاقتور وزیراعظم نے نظام مفلوج کر دیا

334

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طاقتور مافیا نے نظام مفلوج کرکے فائدہ اٹھایا ہے لیکن جس روز وہ یہ بیان دے رہے تھے یعنی بدھ کے روز کے ملک بھر کے اخبارات اس خبر سے بھرے ہوئے تھے کہ پنجاب میں پاکستان کے طاقتور وزیراعظم کی مداخلت کے نتیجے میں دو سال میں پانچواں آئی جی پولیس تبدیل کر دیا گیا۔ تازہ واردات آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے ساتھ ہوئی جو لاہور پولیس کے سربراہ کے طور پر عمر شیخ کے تقرر کے خلاف تھے انہوں نے دو ماہ کے دوران کئی مرتبہ وزیراعظم کو پولیس کے امور میں سیاسی مداخلت کی اطلاع دی تھی۔ عمر شیخ کو لاہور پولیس کا سربراہ بنانے پر آئی جی نے انہیں ہٹانے کا کہا لیکن طاقتور وزیراعلیٰ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو افسر کئی ماہ سے وزیراعظم کو سیاسی مداخلت کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا اسے ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ اس معاملے میں سیاسی مداخلت ہو رہی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ شعیب دستگیر کے خلاف شکایات تھیں۔ وزیراعلیٰ بزدار نے خوب کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم کسی افسر کو مقرر کریں اور دوسرا مخالفت کرے۔ سب سے بڑھ کر شہباز گل بولے۔ کہتے ہیں کہ پانچ کیا پانچ سو تبدیلیاں بھی کریں گے۔ یہ سب سیاسی مداخلت بھی کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم کو اختیار ہے کہ کسی افسر کو کہیں بھی مقرر کریں۔ لیکن پولیس جیسے محکمے میں اس طرح مداخلت کا تو صاف مطلب ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت کے کچھ عزائم ہیں۔ وزیراعظم بننے سے قبل اور بنتے وقت عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت نہیں کریں گے۔ وہ اس سیاسی مداخلت کو اداروں کی تباہی کا سبب قرار دیتے تھے بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی انہوں نے کئی مرتبہ اس چیز کو ملکی نظام میں خرابی کا سبب قرار دیا تھا۔ لیکن اب یہ کام کرکے کھلم کھلا وزرا اور ہمنوا یہ کہہ رہے ہیں کہ پانچ سو تبدیلیاں بھی کریں گے لیکن یہ کیا مذاق ہے کہ کسی شعبے کا سربراہ بار بار سیاسی مداخلت کی شکایت کرے اور آپ اس پر غور کے بجائے اسے ہی تبدیل کردیں۔ وزیراعظم جو کہتے تھے وہی ہوا بھی ہے اس سیاسی مداخلت کے نتیجے میں پولیس جیسے ادارے میں ڈسپلن ٹوٹ گیا، سینئر پولیس افسران کا ایک اجلاس ہوا اور اس صورتحال پر غور کیا گیا۔ کیا عثمان بزدار صاحب اس اجلاس کے شرکا کو بھی نکال دیں گے۔ یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا جائے گا۔ پولیس میں بے چینی کا مطلب ابھی حکمرانوں کو پتا نہیں ہے۔ ابھی ایڈیشنل آئی جی پنجاب طارق مسعود نے کام کرنے سے انکار کیا ہے۔ سینئر اور پروفیشنل لوگ ذہنی خلفشار کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوسرا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس طرح ایسے مواقع پر تبدیلیاں نہیں کی جاتیں۔ اگر پولیس جیسے حساس شعبے میں کوئی اختلافات ہوں تو نہایت حکمت کے ساتھ معاملات سے نمٹا جاتا ہے۔ اگر پولیس کے آئی جی کو اس طرح ہٹایا گیا ہے تو ان کے بہت سے ہمدرد شعبے میں موجود ہوں گے کس کس کو ہٹایا جائے گا۔ پورا ادارہ تباہ ہو جائے گا۔ اگر پولیس انتقامی کارروائی پر اتر آئی، نہایت ٹیکنیکل طریقے سے پنجاب حکومت ناک آئوٹ ہو جائے گی۔ مقدمات کی تیاری میں جھول، رپورٹس کے اندراج میں حکومت کو ملنے والی سہولت کا خاتمہ۔ اہم حکومتی عہدیداروں کے خلاف عموماً رپورٹس درج نہیں ہونے دی جاتیں لیکن اگر پولیس کو چھیڑ دیا ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ جو پولیس حکومت کے کہنے پر غلط رپورٹس درج کرتی ہے اور جھوٹی ایف آئی آر درج کرتی ہے۔ وہ اپنے سربراہ اور ادارے کی بے عزتی پر بھی کہیں کوئی جھوٹی ایف آئی آر درج کر سکتی ہے۔ بلکہ سچی ایف آئی آر درج کر سکتی ہے۔ مسئلہ صرف پولیس کا نہیں رہا۔ عمران خان نیازی کی حکومت نے سارے اداروں کے معاملات کو خراب کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ سب سے پہلا کام تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرکے کیا گیا۔ اس سے ادارے میں بے چینی پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ اسی طرح نیب کے چیئرمین کے مسئلے پر بھی وزیراعظم اور نیب گٹھ جوڑ کا الزام لگ چکا ہے۔ پہلے تو یہ الزام صرف کرکٹ کے معاملے میں لگایا جاتا تھا کہ عمران کا مزاج آمرانہ ہے لیکن اب رفتہ رفتہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ حکومت میں بھی اس مزاج پر قابو نہیں پا سکے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اور اس کے ذمے دار اور سمجھ دار ارکان، اگر ہوں، کو سوچنا ہوگا کہ پارٹی اور ملکی نظام میں خرابی کا سبب کیا ہے۔ صرف آئی جی پنجاب کے مسئلے کو لے لیں، دو سال میں پانچ آئی جی کیوں تبدیل ہوئے حکومت ان سے کیا کام لینا چاہتی ہے جو وہ نہیں کرتا تو یہ آئی جی پانچ چھ ماہ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ کیا پولیس کی پوری فورس نالائق ہے یا وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور پی ٹی آئی کے لال بجھکڑ زیادہ سمجھدار ہیں۔ تنازعہ شروع ہوا تو کلیم امام کو آئی جی بنایا گیا تھا لیکن یہ افسروں کی سمجھ میں نہیں آیا تو صرف تین ماہ بعد محمد طاہر کو آئی جی بنا دیا گیا کہ وہ پولیس میں اصلاحات کریں گے۔ پتا نہیں محمد طاہرکن اصلاحات کے لیے آئے لیکن انہیں بھی ایک ماہ سے زیادہ محکمے میں اصلاح نہیں کرنے دی گئی ان کے بعد امجد جاوید سلیمی بھی صرف چھ ماہ رہے اور عارف نواز آگئے لیکن انہیں بھی 7 ماہ بعد چلتا کر دیا گیا۔ ان کی جگہ شعیب دستگیر کو دی گئی اور تقریباً اتنی ہی مدت میں ان کو بھی ہٹا دیا گیا۔ یہ صورتحال نہایت سنگین ہے۔ الزام بھی یہی لگا ہے کہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ گویا پولیس کے محکمے کے پاس اہل لوگ نہیں ہیں۔ پولیس کو نااہل ثابت کرنے سے کون سے طاقت ور گروپ کو فائدہ ہوگا۔ یہ بات عمران خان ہی بتا سکتے ہیں کیونکہ وہی کہہ رہے ہیں کہ طاقتور لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔