دہشت گردی کا کورونا

265

کورونا سے تو دنیا کی جان چھوٹتی ہوئی نظر آرہی ہے مگر دہشت گردی کا جو کورونا دنیا کے کچھ ملکوں کو چمٹ گیا ہے فی الحال قابو میں آتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی وجوہ ڈھکی چھپی نہیں بہت واضح ہیں۔ کرۂ ارض میں مفادات کی بنیاد پر جو سیاسی اور عسکری تقسیم اُبھر رہی ہے اس میں دہشت گردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانا ہے۔ جب تک دنیا میں گوارا دہشت گردی اور ناگوار دہشت گردی یا اچھی اور بری دہشت گردی کی تقسیم جاری رہے گی یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ مگر ستم بالائے ستم یہ کہ دنیا اس تقسیم سے آزاد ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ وزیر ستان میں دہشت گردوں کی طرف سے بچھائی گئی ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں فوج کے تین جوانوں نے اپنی جان قربان کی۔ ان میں ایک نوجوان افسر لیفٹیننٹ ناصر خالد سلہریا کا تعلق مظفر آباد آزادکشمیر سے تھا جسے فوجی اعزاز کے ساتھ آبائی علاقے میں دفن کیا گیا۔ ناصر خالد شہید ایک پولیس افسر کا بیٹا تھا جس کے والد حادثاتی موت کا شکار ہوئے اور والدہ نے بیٹے کے مستقبل کو بیوگی کے عالم میں حسن و خوبی سے یوں تعمیر کیا کہ وہ کم عمری ہی میں اپنے پیشے میں نمایاں اور ممتاز بن کر اُبھرنے لگا۔ یہاں تک کہ بائیس سال کی عمر میں یہ نوجوان فوج میں غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل قرار پایا۔
وزیرستان سے آئے روز فوجی جوانوں کی لاشیں ملک بھر میں پہنچ رہی ہیں جو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس علاقے میں ایک خوفناک دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ پہ در پہ آپریشنوں کے باوجود دہشت گرد اس علاقے کو یا تو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں یا پھر بیرونی راستوں سے علاقے میں کامیابی داخل ہوتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کو افغانستان سے مسلسل کمک مل رہی ہے۔ افغانستان میں ان کے فوجی ٹھکانے موجود ہیں۔ دہشت گرد یہاں اپنی سرگرمیاں آزادانہ طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے خلاف افغانستان میں ہونے والی ساری دہشت گردی بھارت کی سرپرستی میں جاری ہے۔ بھارت پاکستان کو دوطرف سے گھیرنے کے اپنے دیرینہ اور طویل المیعاد منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
پاکستان کی مغربی سرحد کو لہو لہو اور غیر مستحکم رکھنے کا کھیل مقامی نہیں اس کا تعلق عالمی قوتوں سے ہے جو یہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان مغربی سرحد کی حفاظت اور چوکسی کے عمل سے بے نیاز ہو کر اپنی ساری فوجی توانائی مشرقی سرحد یعنی بھارت کے ساتھ لگنے والے بارڈر پر مرکوز اور مجتمع کرے۔ اس مقصد کے لیے افغانستان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں ہونے والی ان سرگرمیوں اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو مغربی ملکوں کی بالواسطہ حمایت حاصل ہے۔ اس کا ایک ثبوت چند دن قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی طرف سے چار بھارتی شہریوں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی درخواست پر لیت ولعل کے رویے کا اظہار ہے۔ بھارت کے اخبار ’’دی ہندو‘‘ میں سہاسنی حیدر کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان چونکہ سلامتی کونسل کا رکن نہیں اس لیے پاکستان نے ایک درخواست کے ذریعے سلامتی کونسل کی دہشت گردی کے انسداد کی کمیٹی کو درخواست دی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی فنڈنگ اور سرپرستی کی بنا پر دہشت گردی کی روک تھام کی سیکشن 1217 کے تحت چار بھارتی شہریوں انگارہ اپاجی، گوبندہ پٹنائک، وینو مادھیو اور اجوائے مسٹری کے نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیے جائیں۔ پاکستان نے کہا تھا کہ یہ لوگ افغانستان میں پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کو عملی اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ یہ تنظیمیں پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرتی ہیں۔ سلامتی کونسل میں امریکا، برطانیہ جرمنی، بیلجیم اور فرانس نے ان دہشت گردوں کے نام ہولڈ پر ڈال دیے۔ ان ملکوں نے پاکستان سے اس دعوے کی حمایت میں مزید ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ بھارتی نمائندے نے اس کارروائی پر سلامتی کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کیا جبکہ پاکستان نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا۔
پاکستان کا موقف یہ ہے کہ بھارت کا شمار دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ملکوں میں کیا جائے کیونکہ اس کے ادارے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ امریکا کی سرپرستی میں سلامتی کونسل کے ارکان کا ایک مخصوص گروپ پاکستان کی اس الزام کو پوری طرح اہمیت نہیں دے رہا حالانکہ ان سرگرمیوں کا ایک زندہ ثبوت کلبھوشن یادیو کی صورت میں پاکستان کے پاس موجود ہے۔ بھارتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اب جبکہ بھارت 2021,22 کے لیے سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کرنے جا رہا ہے تو پاکستان بھارت کو زچ کرنے کے لیے اسے باربار دہشت گرد ی کی حامی ریاست قرار دلوانے کی کوششیں کرتا رہے گا۔ مغربی دنیا کا پاکستان اور بھارت کے لیے دہشت گردی کے دو الگ پیمانوں کا استعمال ان ملکوں کی منافقانہ روش کا ثبوت ہے۔ بھارت کی طرف سے کسی بھی پاکستانی باشندے پر دہشت گردی کا الزام عائد ہو تو اقوام متحدہ اسے گلوبل ٹیررسٹ قرار دینے میں لمحوں کی دیر نہیں لگاتی کیونکہ اس میں امریکا کی دلچسپی اور مفاد پوشیدہ ہوتا ہے جو بھارت کا اسٹرٹیجک شراکت دار ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی طرف سے ثبوتوں کی بوریوں اور کلبھوشن جیسے زندہ کرداروں کے باوجود بھارت کے بارے میں نرم رویہ اپنایا جاتا ہے۔ یہ دوہرے میعار دہشت گردی کے مقابلے کے مغربی ملکوں کے دعوئوں کو بے معنی بنا رہے ہیں۔