وزیراعظم عمران خان نے خوب بات کی ہے بلکہ اب اپنا اصل اور سب سے بڑا یوٹرن لیا ہے۔ پاکستانی قوم کو اچھا اور حکمرانوں کو برا کہنے والے عمران خان نے اچانک چند لاکھ پاکستانیوں کو محب وطن اور کروڑوں پاکستانیوں کی حب الوطنی کو مشکوک قرار دے دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جتنے محب وطن پاکستانی باہر ہیں اتنے ملک میں نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اوورسیز اور دوہری شہریت والوں کو غدار سمجھا جاتا ہے۔ یہ زیادہ محب وطن ہیں انہیں وزیر بنایا جائے تو ان کے خلاف لوگ عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔ ان کو عہدے دینے پر اعتراض کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے منطق پیش کی ہے کہ 90 لاکھ پاکستانی نوکریاں نہ ملنے پر باہر گئے۔ ان کے پیسے سے ملک چلتا ہے۔ پاکستان کے وزیر شہری ہوا بازی نے ایک بیان دے کر پاکستان کی ہوا بازی کی صنعت کو بحیرہ عرب میں غرق کر دیا۔ اب وزیر اعظم نے پاکستانی قوم میں تفریق پیدا کری دی۔ آج تک کسی نے بیرون ملک پاکستانی اور ملک میں موجود پاکستانی میں پاکستانیت اور حب الوطنی کے حوالے سے تفریق نہیں کی۔ بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں کے بارے میں ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ بیرون ملک رہ کر پاکستان کے لیے تڑپتے ہیں۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ 22 کروڑ پاکستانیوں کی حب الوطنی مشتبہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی قوم میں افتراق کا وہ بیج بویا ہے جو برسوں کانٹے دار پودے ہی پیدا کرے گا ۔ اس سے شاید ان کے بلین ٹری سونامی سے زیادہ تباہی ہو گی ۔اب بیرون ملک سے آنے والا اپنے ملک میں رہ کر ملک کی خدمت کرنے والوں کو ترچھی نگاہ سے دیکھے گا ۔ اس تفاخر کا شکار رہے گا کہ میرے پیسوں پر پلنے والے پاکستانیو تمہاری کیا اوقات ہے ۔ اور یہاں رہنے والے22کروڑ پاکستانی اس ذہنی دبائو میں رہیں گے کہ ہم تو محب وطن نہیں ہیں ۔ بلکہ لوگ کسی جذباتی رد عمل کا شکار بھی ہو سکتے ہیں کہ جب ہم محب وطن نہیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ یہ تو وزیر اعظم کی غیر حقیقت پسندانہ بات کا تجزیہ ہے لیکن جو کچھ انہوں نے کہاہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں حقائق کا علم بھی نہیں ہے اور ان میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ90 لاکھ پاکستانی نوکریاں نہ ملنے پر باہر گئے ۔ جناب عمران خان صاحب یہ بھی بتا دیں کہ وہ کون سے لوگ تھے جنہیں پاکستان میں نوکری نہ ملی اور باہر بہت اچھی نوکری ملی کہ وہ اپنے پیسے سے ملک چلانے لگے ۔ جناب وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک سے باہر جانے والے بہت سے لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے گئے ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعدان کو بیرون ملک اچھی ملازمت ملی ۔ بلا شبہ ان لوگوں کی بھیجی ہوئی رقوم سے ملک کو زر مبادلہ ملتا ہے ۔ ان ہی میں سے کچھ لوگ کاروبار کرنے لگے اور ان کی رقم سے زر مبادلہ کو تقویت ملی ۔ اصل زر مبادلہ یہی لوگ بھیجتے ہیں ۔ دوسرا مزدور طبقہ یا ٹیکنیکل لوگ ہیں۔ان میں سے اکثریت حکومت کے نظام پر اعتماد نہیں کرتی وہ لوگ ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے میں زیا دہ مطمئن ہوتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے گھر والے جو وزیر اعظم کی نظر میںمحب وطن نہیں ہیں پاکستانی ایجنسیوں کے سوالات سے بچ جاتے ہیں اور یہ شکوہ وزیر خزانہ بلکہ کئی وزرائے خزانہ اور تجارت کر چکے ہیں کہ ہنڈی کے ذریعے بھیجی جانے والی رقوم بینکوں کے ذریعے ترسیل سے زیادہ ہوتی ہیں اس کے لیے مہم بھی چلائی گئی کہ لوگ سرکاری ذرائع پر اعتماد کریں ۔ وزیر اعظم اگر یقین رکھتے ہیں کہ ملک بیرون ملک پاکستانیوں کے پیسے سے چلتا ہے تو پوری کابینہ بیرون ملک والوں سے بھر دیں اور تمام مشیر بھی ان میں سے منتخب کر لیں ۔ ہر طرح کی رعایت دیں تاکہ ملک مزید اچھا چل سکے ۔لیکن دوسری طرف غیر محب وطن پاکستانیوں پر ٹیکسوں کی بھر مار ختم کر دیں ۔بلکہ کوشش کریں کہ22 کروڑ ہی سے مزید دو تین کروڑ پاکستانیوں کو بیرون ملک بھیج دیں ۔ ملک جاپان اور جرمنی بن جائے گا ۔ وزیر اعظم اس اعتبار سے تو خود بھی بیرون ملک جانے کے زیادہ اہل ہیں وہ خود ملک سے باہر چلے جائیں تاکہ مزید زر مبادلہ ملے اور قوم سکون میں رہے ۔ وزیر اعظم یہ غلط فہمی دور کرلیں کہ جو لوگ دوہری شہریت رکھتے ہیں وہی محب وطن ہوتے ہیں ۔یہ مصیبت ہے تو وزیر اعظم اکثریت کے بل پر اور فوج کی پشت پناہی( جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں) یہ قانون پارلیمنٹ میں ختم کرا دیں بلکہ یہ قانون پاس کروا لیں کہ دوہری شہریت والوں کو الیکشن لڑنے اور کابینہ و حکومت کے لیے ترجیح دی جائے گی ۔ باقی رہ گیا حساب کتاب تو حفیظ شیخ سے پوچھ لیں کہ ملک میں رہنے والے لوگ کتنا سرمایہ پیدا کرتے ہیں اور کتنا ٹیکس ایکسائز اور دیگر ڈیوٹیاں حکومت وصول کرتی ہے ۔ وہ جو کراچی67فیصد ٹیکس دیتا ہے کیا وہ بھی بیرون ملک پاکستانیوں کے پیسے سے دیتا ہے ۔ عمران خان صاحب چونکہ باہر سے آئے ہیںیا باہر سے ملنے والی ہدایات پر عمل کرتے ہیں ۔ پہلے بھی پاکستانیوں کو اچھوت سمجھتے تھے سیاست کے چکر میں بمشکل تیار ہوئے کہ جلسوں جلوسوں میں عوام کے درمیان آئیں ۔ اب بھی عام پاکستانی سے دور رہتے ہیں ۔ اسی لیے دائیں طرف حفیظ شیخ اور بائیں طرف زلفی بخاری ، پیچھے تانیہ ثانیہ اور دیگر لوگ تاکہ انہیں بیرون ملک کی ہوائوں کے جھونکے آتے رہیں ۔ دراصل یہ خرابی حکمران اور غلام طبقات کی سوچ کی ہے ۔ وزیر اعظم یہ سوچ تبدیل کریں ۔