دنیا میں سیاست اصولوں کی بنیاد پر ہوتی ہے لیکن ہمارے ڈھنگ نرالے ہیں۔ ہماری سیاست ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات کے گرد گھومتی ہے۔ جس طرح اس بات کو عالمی سچائی کا درجہ حاصل ہے کہ ’’جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے‘‘، اسی طرح ہماری قومی سچائی یہ ہے کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے، سیاست میں نہ دوستی مستقل ہوتی ہے نہ دشمنی۔ اس میں آج کے دوست کل کے دشمن بن سکتے ہیں اور کل کے دشمن آج کے دوست قرار پاسکتے ہیں۔ ہماری سیاست کا کمال یہ ہے کہ اس میں سچ کو جھوٹ کا اور جھوٹ کو سچ کا لبادہ پہنایا جاسکتا ہے اور اس پر کوئی تعجب نہیں کرتا۔ کیوں کہ یہ ہمارے معمولاتِ زندگی میں شامل ہے۔ ہمیں یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ان دنوں شہباز زرداری ملاقات پر سوشل میڈیا میں ہیجان برپا ہے اور لوگ شہباز شریف کو یاد کرا رہے ہیں کہ یہی وہ زرداری ہے جسے ایں جناب لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے دعوے کرتے تھے لیکن آج اسی کے در پہ ماتھا رگڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کہاں گئے وہ دعوے اور کہاں گئیں وہ بڑھکیں! میڈیا میں اس ملاقات کی جو تصویریں شائع اور ٹیلی کاسٹ ہوئی ہیں اُن میں دونوں سیاستدانوں کو ماسک پہنے ہوئے ایک دوسرے کا خیر مقدم کرتے دکھایا گیا ہے۔ ماسک نے دونوں کی لاج رکھ لی ہے اور یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ کس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ہے اور کون خجالت اور شرمندگی کا اظہار کررہا ہے۔ البتہ ہم اندازے سے دونوں چہروں کو پڑھ سکتے ہیں۔ کورونا نے دونوں کو ہاتھ ملانے سے بھی روک دیا ہے۔ یوں بھی
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
اگر دونوں ہاتھ ملا بھی لیتے تو کون یہ دعویٰ کرسکتا تھا کہ ان کے دل بھی آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ سیاست ان کی نظر میں منافقت کا کھیل ہے اور اس کھیل میں ان دونوں حضرات کو کمال درجے کی مہارت حاصل ہے۔ انہیں ایک جگہ مل بیٹھنے کی ضرورت صرف اس لیے پیش آئی ہے کہ دونوں کو ایک جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فی الحال ذاتی اختلافات اور رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر مشترکہ خطرے سے نمٹنا چاہیے۔ یہ خطرہ عمران حکومت کی صورت میں ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس حکومت نے عوام کا کیا حال بنا رکھا ہے اور انہیں کس طرح مہنگائی اور بیڈ گورننس کی چکی میں پیس رہی ہے، ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ خود ان کی گردنیں بھی شکنجے میں آئی ہوئی ہیں اور عمران خان اعلان کررہے ہیں کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے، حالاں کہ انہوں نے بہت سوں کو چھوڑ رکھا ہے، البتہ اپوزیشن کے مگرمچھ ضرور ان کی ہٹ لسٹ پر ہیں اور اسی کے سہارے وہ حکومت کررہے ہیں۔
ہمیں یاد آیا کہ شریف فیملی نے پہلی مرتبہ اس منافقت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس سے قبل میاں نواز شریف بھی اسی حرکت کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ وہ جب پہلی مرتبہ برسر اقتدار آئے تو بقول ان کے پیپلز پارٹی کا نام سنتے ہی ان کا خون کھول اُٹھتا تھا۔ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور بے نظیر وفاق میں وزیراعظم لیکن وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کا اسلام آباد سے نکلنا دشوار بنادیا تھا کیوں کہ اسلام آباد سے نکلتے ہی پنجاب کی سرحد شروع ہوجاتی تھیں اور پنجاب کا حکمران ان کا خیر مقدم کرنے کو تیار نہ تھا۔ وہ لاہور جاتیں تو ائرپورٹ پر ان کے استقبال کو نہ آتا اور نہ انہیں وہ پروٹوکول دیا جاتا جو وزیراعظم کی حیثیت سے ان کا حق تھا لیکن جب خود نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے اور اپنی غلطی کی وجہ سے حالات کی پکڑ میں آئے تو ساری اکڑ نکل گئی اور پاکستان سے دس سالہ جلاوطن کے دوران لندن میں بے نظیر بھٹو کے قدموں میں جا بیٹھے اور ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے ذریعے فوجی آمریت کے خلاف مشترکہ سیاسی جدوجہد کا عہد کیا۔ لیکن یہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ اور دونوں لیڈروں کا مشترکہ سیاسی جدوجہد پر اتفاق۔ یہ سب کچھ منافقت کا کھیل تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہ تھے۔ بے نظیر بھٹو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے باوجود درپردہ فوجی حکمران کے ساتھ معاملہ کرنے میں مصروف رہیں اور میاں نواز شریف کی بھی یہ کوشش رہی کہ کسی طرح دس سالہ جلاوطنی سے جان چھوٹ جائے اور وہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ سے ہٹ کر اپنا کھیل کھیل سکیں۔
’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کے بعد اب سنے میں آرہا ہے کہ دونوں پارٹیاں ’’میثاق پاکستان‘‘ کرنا چاہتی ہیں جس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ پاکستان کو عمران خان کی دستبرد سے بچایا جائے ورنہ پاکستان کا تو بیڑا غرق ہوگا ہی ہم بھی نہیں بچیں گے۔ شہباز زرداری ملاقات اسی سلسلے کی کڑی تھی لیکن جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ دونوں پارٹیاں سیاست میں منافقت کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ وہ نہ ایک دوسرے سے مخلص ہیں، نہ سیاسی جدوجہد میں اخلاص کا مظاہرہ کرنے کو تیار ہیں۔ شہباز شریف اور زرداری کی ملاقات بھی اس اعتبار سے بے نتیجہ ہے۔ دونوں نے عمران حکومت کے خلاف دل کی بھڑاس تو ضرور نکالی لیکن کسی لائحہ عمل پر متفق نہ ہوسکے۔ حتیٰ کہ اے پی سی کی کوئی تاریخ طے کرنے میں بھی ناکام رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملاقات کے اختتام پر دونوں سیاستدان مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے اور عوام کو اپنی سیاسی جدوجہد کے بارے میں کوئی مثبت پیغام دیتے لیکن ان سے یہ بھی نہ ہوسکا۔ انہوں نے میڈیا کا سامنا کرنے سے اس لیے گریز کیا کہ کہیں وہ تلخ سوالات نہ کر بیٹھے اور منافقت پر مبنی اس ملاقات کا سارا مزا کِر کِرا ہوجائے۔
تو یہ ہے اپوزیشن کے سیاستدانوں کی اوقات۔ اسی لیے بعض تجزیہ کار یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ عمران خان کو اِس وقت کسی حقیقی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے اور قومی اسمبلی میں ان کے پاس مطلوبہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود اِن ہائوس تبدیلی کی بھی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اس منافقانہ کھیل کا حصہ بننے کے بجائے اپنا راستہ الگ کرلیا ہے وہ عوام کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہے اور انہیں ملک کی حقیقی صورت حال کے بارے میں اعتماد میں لے رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خود عوام اس کے اعتماد پر کتنا پورا اُترتے ہیں۔