ترکی کے خلاف امریکا، فرانس، اسرئیل کا اتحاد

1488

ترکی کے خلاف غیر مسلم ریاستیں ایک مرتبہ پھر اتحاد بنانے میں مصروف ہیں۔ اس اتحاد میں روس کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن روسی قیادت اس سلسلے میں فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے کہ وہ کس کے ساتھ جائے۔ Greek City times کا کہنا ہے کہ یونان نے امریکا اور دیگر ممالک سے کہا ہے کہ ترکی کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔ یونان کا کہنا ہے کہ:
Greece must seriously consider a pre-emptive strike on Turkey
اُدھر امریکا نے پابندی ہٹاتے ہی فوری طور پر یونان کو بڑے اور چھوٹے ہتھیاروں کی سپلائی بہت تیزی سے شروع کر دی ہے۔ قبل ازیں ترکی نے 5ستمبر 2020 کو کہا تھا کہ ’’روس بحر اسود‘‘ میں بحری مشقیں کر ے جس کے جواب میں یونان نے فرانس، اٹلی اور اسرائیل کو ’’بحر اسود‘‘ میں جنگی مشقیں کرنے کی دعوت دے دی ہے ’یونان، امریکا، فرانس اور اٹلی ترکی کے خلاف اتحاد بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں جس میں امریکا ترکی کے ساتھ لڑائی میں اتحادیوں کو اسلحہ فراہم کرے گا۔
کچھ عرصے سے ایک نیا آبی محاذ گرم ہوتا نظر آرہا ہے، اور وہ ہے بحرِ روم کا مشرقی کنارہ۔ اوپر بیان کی گئی مثالوں کے برعکس یہاں علاقائی ممالک اپنی قوت کا مظاہرہ کررہے ہیں، اور ’سپر پاورز‘ کی براہِ راست دلچسپی فی الحال ظاہر نہیں ہوئی۔ یہ درست ہے کہ کشیدگی میں مغرب و امریکا کے قریب یونان، مصر اور اسرائیل کے ملوث ہونے کی بنا پر واشنگٹن اور برسلز کی حمایت بڑی واضح ہے، بڑی طاقت نے اپنے عسکری اثاثے یہاں اُتارنا شروع کر دیے ہیں۔
بحر روم اور بحر اسود پر ترکی کو برتری حاصل ہے جس پر امریکا اور ’’ناٹو ممالک‘‘ تشویش میں مبتلا ہیں ترکی سے زیادہ خدشہ یونان کو ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ترکی بھی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (ناٹو) کا رکن ہے لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے ناٹو کے ارکان اس کے خلاف اتحاد بنانے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ بحر روم اور بحر اسود میں امریکا اور ناٹو ممالک کی تشویش اور کشیدگی کی وجہ جہاز رانی و مواصلات سے زیادہ معدنیات ہیں۔ بحرروم کی تہہ کے نیچے تیل وگیس کے چشمے موجزن ہیں جن پر قبضے کے لیے علاقے کے تمام ممالک اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں۔ جنوب مشرقی ساحل پر لبنان، غزہ اور مصر کے پانیوں میں گیس کے کئی بڑے ذخائز دریافت ہوئے ہیں۔ فلسطین اور لبنان کے خزانے پر اسرائیل قابض ہے اور اس نے خوب فائدہ اُٹھایا لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ اس ڈکیتی کے خلاف آواز اٹھائے۔
’’بحر روم پر بالادستی‘‘ کے لیے متحدہ عرب امارات، اسرائیل اور مصر کے گٹھ جوڑ پر ترکی کو سخت تشویش ہے۔ یونان بھی ترکی کی مخالفت میں اسرائیل سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ چنانچہ صدر اردوان ’’بحر ِ روم‘‘ کے جنوبی ساحل پر شمالی افریقا کے ممالک لیبیا، تیونس، الجزائر اور مراکش سے قریبی تعلقات استوار کررہے ہیں۔ امریکا اور یورپ سے مایوس ہوکر لیبیا اب اپنے دفاع کے لیے ترکی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ 27 نومبر 2019 کو ترکی اور لیبیا نے ’مشترکہ آبی حدود‘ کے عنوان سے مفاہمت کی ایک یادداشت یا MOU پر دستخط کردیے۔ استنبول میں صدر اردوان اور لیبیا کے وزیراعظم فیض السراج کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترکی اور لیبیا کے درمیان واقع سمندر کے جملہ معدنی اور قدرتی وسائل ان دونوں ممالک کی مشترکہ ملکیت ہیں جن کی حفاظت کو یقینی بنانا ترک بحریہ کی ذمے داری ہوگی۔ اُدھر فرانس ایک مرتبہ پھر لبنان میں قیادت حزب اللہ کے حوالے کرنے کی تیاری کر ر ہا ہے۔ لیکن بظاہر امریکا اس کا مخالف نظر آرہا ہے۔
In crisis-hit Lebanon,Paris and Washington at odds over Hezbollah
اُدھر الاسکا کے ساحلوں سے موصول ہو نے والی اطلاعات کے مطابق وہاں روس نے اپنی بحری مشقیں شروع کر دی ہیں۔
یہ امریکا کی ایک ریاست ہے شمال مغربی امریکا کا یخ بست علاقہ جسے ریاست ہائے متحدہ امریکا نے 1867ء میں 72 لاکھ ڈالر کے عوض روس سے خریدا تھا۔ اگر ’’الاسکا‘‘ امریکا کے ہاتھوں فروخت نہ ہوتا آج روس کو گرم پانیوں میں تجارتی اور عسکر ی مسئلہ کبھی پیدا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے دنیا بھر کی بڑی آبی گزرگاہیں، شاہراہیں، آبنائیں اور سمندر عسکری کشیدگی کی زد میں ہیں۔ بحر جنوبی چین (South China Sea) میں آزاد جہازرانی کے مسئلے پر امریکا اور چین کو ایک دوسرے کے موقف سے سخت اختلاف ہے۔ چین بحرالکاہل کے جنوبی حصے کو اپنی ملکیت تصور کرتا ہے اور اس نے یہاں بہت سے مصنوعی جزیرے بناکر بحری اڈے قائم کرلیے ہیں۔ امریکا بہادر کو بحرِ جنوبی چین پر بیجنگ کی اجارہ داری کسی طور قبول نہیں اور تباہ کن جہازوں کے گشت سے واشنگٹن مسلسل یہ باور کرا رہا ہے کہ بحر جنوبی چین اقوام عالم کے لیے ایک کھلا سمندر اور آبی گزرگاہ ہے۔ جاپان، ملائشیا اور انڈونیشیا کا بھی یہی موقف ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ جزیرہ نمائے کوریا، بحرِ جاپان، خلیج کوریا، بحرِ زرد (Yellow Sea) اور آبنائے کوریا کا ہے کہ جہاں جوہری ہتھیار سمیت حشر بپا کرنے کے سامان سے آراستہ و پیراستہ روس، چین اور امریکی بحریہ کے جہاز ایک دوسرے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ اس علاقے میں جاپان اور جنوبی کوریا موجود ہیں۔ بحرالکاہل کے جنوب میں چین و تائیوان کے درمیان واقع آبنائے فارموسا بھی کشیدگی کی زد میں ہے۔ بحر احمر اور بحر عرب کے درمیان آبنائے باب المندب کے قریب ایک عرصے سے صورت حال کشیدہ ہے۔ جنوری 2020ء خلیج فارس گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکا کے ایک جدید ترین ڈرون کی تباہی اور سعودی جہازوں پر تباہ کن میزائل حملوں کا نظارہ بھی کرچکی ہے۔ لیکن نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (ناٹو) کی تشکیل 1949 میں سرد جنگ کے ابتدائی مراحل میں اپنے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے لیے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر کی گئی تھی۔ لیکن یہ سارے اصول صرف غیر مسلم ممالک کے لیے ہیں۔ اس اتحاد کا کارنامہ یہ بھی ہے اس نے جب بھی فوجی کارروائی کی اس کے لیے اس نے صرف مسلم ممالک کا انتخاب کیا ہے۔