پاکستان میں آنے والی معاشی مشکلات

524

گزشتہ 2 سال میں تحریک انصاف کی حکومت پر جو اعتراضات، الزامات، اختلافات، شکوے، شکایتیں، مذمتیں، تنقیدیں، احتجاج، مظاہرے، جلسے اور جلوس اپوزیشن کی جانب سے، میڈیا کے فورم پر اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ہوئے ہیں اُن کو سہتے سہتے اور برداشت کرتے کرتے حکومت کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ جوں ہی کسی طرف سے کوئی بہتری کا اشارہ ملتا ہے یا کوئی اچھی خبر آتی ہے تو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تمام ایم پی اے، ایم این اے، وزرائِ کرام اور مشیران عظام عوام کو تسلی دینے لگتے ہیں، خوشنما بیانات جاری کرنا شروع کردیتے ہیں کہ مشکل وقت گزر چکا ہے، حالات بہتر ہورہے ہیں، ہم نے کورونا کو شکست دی ہے، مہنگائی کو بھی شکست دیں گے، مافیاز کو نہیں چھوڑیں گے، چوروں لٹیروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، این آر او نہیں دیں گے۔
مالی سال 2020-21ء کے پہلے مہینے میں برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، اسی طرح بیرون ممالک سے آنے والے ترسیلات زر (remittance) کا حجم ریکارڈ بلندی تک پہنچ گیا۔ حکومت کی جانب سے عوام کو خوشیوں اور آسانیوں کے پیغامات ملنے لگے لیکن اگلے ماہ یعنی اگست میں برآمدات میں اور ترسیلات زر میں کمی واقع ہوگئی۔ اسی طرح پچھلے مالی سال میں بیرونی سرمایہ کاری (FDI) کی قدر 2.56 ارب ڈالر تھی جب کہ ماہ جولائی میں صرف 114.3 ملین ڈالر ہی پاکستان میں اس مد میں آسکے۔ مسئلہ اصل یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا ابھی تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ تقریباً ساڑھے 9 لاکھ اس وبا کے ہاتھوں موت کی نیند سو چکے ہیں۔ امریکا، فرانس اور برطانیہ ہی نہیں بلکہ بھارت میں بُری طرح اس کی لپیٹ میں ہے۔ یہ البتہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد میں مسلسل کمی ہورہی ہے، اب تک صرف 6 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی اور ملکی طبی ماہرین کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ تعداد میں کمی کی کیا وجہ ہے۔ لیکن دوسری طرف پورے ملک میں شدید بارشوں نے دیہات اور شہر دونوں میں تباہی مچائی ہے۔ کراچی میں شدید بارش اور پورے شہر میں سیلابی کیفیت کے باعث کئی دن کارخانے اور فیکٹریاں بند رہیں۔ ورکرز سڑکوں پر پانی ہونے کی وجہ سے نہ پہنچ سکے، کارخانوں کے اندر پانی چلا گیا، پورٹ کا آپریشن کئی دن معطل رہا، ٹرانسپورٹ متاثر ہونے کی وجہ سے تجارتی سامان اور خام مال کی ترسیل نہ ہوسکی۔ ایکسپورٹ آرڈر متاثر ہوئے، ریٹیل اور ہول سیل کا کاروبار بہت نیچے آگیا، معاشی اور کاروباری سرگرمیاں رُک جانے کی وجہ سے ٹیکسوں کی وصولی میں کمی واقع ہوئی۔ یہاں تک دیہی علاقوں کا تعلق ہے بارش سے کپاس کی فصل کو نقصان پہنچا جس کا منفی اثر پورے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ہوگا اور برآمدات میں کمی آسکتی ہے۔
آئی ایم ایف نے دوبارہ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ معاشی اصلاحات کے پرورگام پر پوری طرح عمل کیا جائے، گردشی قرضوں میں کمی کی جائے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھائی جائیں اور تین ماہ میں ایک ہزار ارب روپے کے ٹیکسوں کے ہدف کو پورا کیا جائے۔ اگر پاکستان ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرتا ہے تو کارخانوں اور فیکٹریوں میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا جس سے ایک طرف تو مہنگائی میں اضافہ ہوگا دوسری طرف اشیا کی طلب میں کمی ہونے کے سبب ٹیکسوں کی وصولیابی کم ہوجائے گی۔ دوسری طرف اگر آئی ایم ایف کی ہدیات پر عمل نہ کیا جائے تو اس کا پروگرام رک جائے گا جس سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ گرے گی اور قرضوں کا حصول مشکل ہوجائے گا۔
قرضوں کی صورت حال بہتر نہیں ہے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی مالیت پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 87 فی صد ہوچکی ہے اور اگر قرضوں کے ساتھ دوسرے واجبات کو بھی ملالیا جائے تو ان کا حجم 106 فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے 2 سال میں بہت زیادہ قرضے لیے ہیں۔ دوسرے 13.25 شرح سود کے باعث پہلے سے موجود قرضوں کی مالیت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ تیسرے پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینے پڑے۔ اسی طرح تمام تر اعلانات اور بیانات کے باوجود حکومت مہنگائی پر قابو نہیں پاسکی۔ شوگر مافیا کے خلاف انکوائری، کیسز اور تحقیقات کے باوجود پورے ملک میں چینی کی قیمت 100 روپے فی کلو ہے۔ یہی معاملہ دیگر اشیا کا بھی ہے۔ اس وقت پاکستانی عوام بیروزگاری اور مہنگائی کا جو عذاب جھیل رہے ہیں اس کا اندازہ معاشرے کے متمول طبقے نہیں لگا سکتے، رہی سہی کسر بارشوں اور سیلابوں نے پوری کردی۔ حکومت کو چاہیے ان معاملات پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرے۔