ای او بی آئی پنشن کا قومی ادارہ

235

الحمد للہ ! وزیر اعظم عمران خان کی ملک کے بزرگ محنت کشوں کے مسائل سے گہری دلچسپی،وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل سید ذوالفقار عباس بخاری کی عملی کاوشوں اور جناب اظہر حمید ،چیئرمین ای او بی آئی کی شب وروز کی کوششوں کی بدولت 75روپے ماہانہ پنشن سے سفر کا آغاز کرنے والا قومی فلاحی ادارہ ای او بی آئی اب ملک کے لاکھوں ریٹائرڈ،معذور ملازمین اور ان کی بیوائوں کو 8,500روپے ماہانہ پنشن کی ادائیگی کر رہا ہے۔جس کی بدولت بزرگ پنشن یافتگان نے سکون کا سانس لیا ہے۔
ای او بی آئی کاتعارف:
قیام:یکم جولائی 1976 بذریعہ ای او بی ایکٹ مجریہ1976
مقاصد:آئین پاکستان کی شق 38(ج) کے تحت نجی شعبہ میںخدمات انجام دینے والے پاکستانی شہریوں کے لیے سماجی بیمہ (Social Insurance)کے تحفظ کی فراہمی کو یقینی بنانا۔
عزم :ہر برسرروزگار پاکستانی کو سماجی بیمہ منصوبہ کے تحت پنشن کی فراہمی
دائرہ کار: نجی شعبہ کے ایسے صنعتی، تجارتی، کاروباری ،رفاہی، تعلیمی و دیگرادارے جہاں پانچ (5)یا زائد ملازمین خدمات انجام دیتے ہوں۔
فرائض : آجروں اور ان کے ملازمین کی رجسٹریشن،ماہانہ کنٹری بیوشن کی وصولی،بیمہ دار افراد اور ان کے پسماندگان کو پنشن کی فراہمی۔
ای او بی آئی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کی زیر نگرانی سہ فریقی بنیاد پر تشکیل شدہ ادارہ ہے۔ جس کے حصہ داروں میں وفاقی حکومت و صوبائی حکومتیں، آجران اور نجی شعبہ کے ملازمین شامل ہیں۔ ادارہ کا16رکنی اعلیٰ سطحی بورڈآف ٹرسٹیز قائم ہے جو ایک پالیسی ساز ادارہ ہے۔ جس میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے علاوہ چاروں صوبوں کے آجران و ملازمین کی مساوی نمائندگی موجود ہے۔
ای او بی آئی کا بورڈ آف ٹرسٹیز:
-1جناب ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی
صدر بورڈ آف ٹرسٹیز/وفاقی سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان
-2 جناب اظہر حمید، چیئرمین ای او بی آئی
-3جوائنٹ سیکریٹری ،وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان
-4 مشیر مالیات، وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان
-5سیکریٹری محکمہ محنت و ترقی انسانی وسائل ،حکومت پنجاب
-6 سیکریٹری محکمہ محنت و ترقی انسانی وسائل، حکومت سندھ
-7 سیکریٹری محکمہ محنت و ترقی انسانی وسائل، حکومت خیبر پختونخوا
-8 سیکریٹری محکمہ محنت و ترقی انسانی وسائل، حکومت بلوچستان
-9 ملک طاہر جاوید،نمائندہ آجران، صوبہ پنجاب
-10 ڈاکٹر محمد یوسف سرور، نمائندہ آجران، صوبہ خیبر پختونخوا
-11 جناب غلام فاروق،نمائندہ آجران، صوبہ بلوچستان
12۔ نمائندہ آجران، صوبہ سندھ
-13 چوہدری نسیم اقبال،نمائندہ ملازمین، صوبہ پنجاب
-14 جناب شوکت علی،نمائندہ ملازمین، صوبہ سندھ
-15 جناب محمد اقبال،نمائندہ ملازمین، صوبہ خیبر پختونخوا
-16 نمائندہ ملازمین، صوبہ بلوچستان
بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاسوں میں آجران، بیمہ دار ملازمین کی رجسٹریشن،کنٹری بیوشن کی وصولیابی، پنشن فنڈ کی محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری اور پنشن یافتگان کی فلاح و بہبود سمیت ادارہ کے مالی اور انتظامی امور پر دور رس فیصلے کئے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں بورڈآف ٹرسٹیز کے تحت مالیات و حسابات کمیٹی، سرمایہ کاری کمیٹی، انسانی وسائل کمیٹی، آڈٹ کمیٹی اور اپیلیٹ اتھارٹی بھی قائم ہیں۔ جو وقتا فوقتا ادارہ کے انتظامی امور اور ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینے اور ان پر غوروخوض کے بعد اپنی سفارشات بورڈ کو پیش کرتی ہیں۔ماضی میں ملک کے نامور اور قد آور مزدور رہنماء جناب خورشید احمد، جناب نبی احمد ،پروفیسر محمد شفیع ملک، ملک مہربان خان ، جناب ظہور اعوان، جناب فضل ربی درد،جناب تاج محمد خانزادہ،ملک لال خان،جناب عبدالرحیم میر داد خیل،چوہدری ظہیر احمد تاج،جناب گل رحمن، جناب حبیب الدین جنیدی اورجناب سلطان محمد بھی ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان رہ چکے ہیں۔ادارہ کے قیام سے تادم تحریر بورڈ کے122اجلاس اور22ہنگامی اجلاس منعقد ہوچکے ہیں۔
پنشن کی تعریف : لفظ پنشن (Pension) لاطینی زبان کے لفظPensioیعنی Paymentسے ماخوذ ہے۔ یعنی ایسی رقم جو کسی ملازم کے عرصہ ملازمت کے دوران کسی فنڈ میں جمع کرائی جائے اورملازمت سے سبکدوشی کی صورت میں ملازم کو بطور پنشن ادا کی جائے۔اسی لیے پنشن کو ملازمت کا انعام بھی کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں 1857کی جنگ آزادی کے بعد سلطنت برطانیہ کی طرز پرپنشن نظام متعارف کرایا گیا۔بعدازاںاس نظام کو تبدیل کرکے1871میں انڈین پنشن ایکٹ مجریہ1871 نافذ کیا گیا۔جس کے سبب مرزا اسد اللہ خان غالب کوبھی اپنی فیملی پنشن کی بحالی کے لیے برسوں جدوجہد کرنا پڑی تھی اور اس مقصد کے حصول کے لیے انہیں کلکتہ کا دور دراز سفر بھی کرنا پڑا تھا۔1881میں برطانوی رائل کمیشن نے پہلی مرتبہ سرکاری ملازمین کے لیے پنشن فوائد منظور کئے۔ بعد ازاں حکومت انڈیا ایکٹ مجریہ 1919 اور 1935کے ذریعہ مزید پنشن اصلاحات کی گئیں۔جنگ عظیم اول کے آغاز میں برصغیر میں پہلی مرتبہ پنشن کی بازگشت اس وقت سنی گئی، جب ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران جنگ عظیم اول میں حصہ لینے کے لیے عام فوجی بھرتی مہم کا آغاز کیا گیا۔فوجی بھرتی کے اشتہارات میں فوج میں بھرتی ہونے والے باشندوںاور کاشت کاروں کو ترغیب دلانے کی غرض سے معقول تنخواہ ،سالانہ رخصت اور پنشن کی نوید سنائی گئی تھی۔جس کے نتیجہ میں برصغیر کے مختلف علاقوں کے باشندوں نے بڑی تعداد میں انگریزی فوج میں بھرتی ہوکر یورپ اور شمالی افریقہ کے جنگی محاذوں پر میدان جنگ میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے اور ان گرانقدر خدمات کے صلے میں بہادری کے تمغوں کے ساتھ فوجی ملازمت سے سبکدوشی پر ماہانہ پنشن کے حقدار بھی ٹہرے۔