شیخ رشید سے شیخو بابا تک…!

302

ٹی وی چینل کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی نئی کتاب ’’لال حویلی سے اقوام متحدہ تک…‘‘نے ہلچل مچا دی ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو ہم نے شیخ رشید کی کتاب نہیں پڑھی۔ شیخ رشید مہربانی فرما کر اپنی کتاب عنایت فرما دیں تو کیونکہ کتاب پڑھ کر ہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال ٹی وی اینکرز کے خیالات پر ہی اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ عمران خان نے دھرنا دینے سے قبل علامہ طاہر القادری سے لند ن میں دھرنے سے متعلق مذاکرات کیے تھے۔ اس کے بعد ہی دھرنا دیا گیا تھا۔ شیخ جی اگر یہ بھی انکشاف فرما دیتے کہ دھرنے میں شامل ہونے والوں کو فی کس یومیہ کتنے پیسے دیے گئے تھے اور کیا کیا سہولتیں مہیا کی گئی تھیں۔ تو حقیقت میں ہلچل مچ جاتی معلوم نہیں شیخ صاحب نے اور کیا کیا انکشافات فرمائیں ہیں۔ ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ٹی وی اینکرز کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کی نئی کتاب نے ہلچل مچا دی ہے ہمارے خیال میں واقعی ہلچل مچ جاتی اگر شیخ جی یہ انکشاف بھی فر ما دیتے کہ دھرنے میں خرچ ہونے والی رقم کے حصول کا ذریعہ کیا تھا اور جنہوں نے یہ رقم فراہم کی تھی انہوں نے کیا کیا مراعات اور سہولتیں طلب کی تھیں۔ اور عمران خان کی حکومت قائم ہونے پر دھرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے والوں کو کیا کیا دیاجائے گا۔ مگر شیخ جی کو آنے والے الیکشن میں حصہ لینا ہے اور وہ کسی سہارے اور سہولت کار کے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتے۔ اس لیے یہ باتیں ان کی نظر میں بے معنی ہیں وہ ان کا تذکرہ کرکے اپنی نشست گنوانا نہیں چاہتے۔
شیخ رشید نے اپنی کتاب میں انکشاف بھی فرمایا ہے کہ جنرل پرویز مشروف انہیں شیخو کہا کرتے تھے۔ اگر یہ انکشاف بھی فرما دیتے کہ ہمارے مغل اعظم نے کس بزرگ کے مزار پر ننگے پائوں حاضری دی تھی۔ کیونکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مغل اعظم اکبر بادشاہ نے سلیم چشتی کے دربار میں ننگے پائوں حاضر ہوکر اولاد کی خواہش کی تھی ان کی منت بر آئی دعا قبول ہوگئی ان کے ہاں ایک شہزادے نے جنم لیا۔ مغل اعظم نے اپنے فرزند ارجمند کا نام شہزادہ سلیم رکھا۔ اور شکر گزاری کے لیے شیخوکہنے لگے۔ ہمارے مغل اعظم کون سی مراد بر آنے کی خوشی میں انہیں شیخو کہا کرتے تھے ہمیں یقین ہے کہ جنرل صاحب کبھی کبھی شیخ صاحب کی کارکردگی سے خوش ہوکر انہیں شیخو بابا بھی کہا کرتے ہوںگے۔ جِسے سن کر ان کا سینہ مزید چوڑا ہوجاتا ہوگا۔ اگر شیخ رشید یہ انکشاف بھی فرما دیتے کہ ہمارے مغل اعظم نے کس کی بارگاہ میں حاضری دی تھی۔ جس کے سبب شیخ رشید کی برخوداری ان کا مقصوم ٹھیری۔ ایک طرف تو شیخ رشید نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دھرنے سے قبل عمران خان نے لندن میں علامہ طاہر القادری سے ملاقات کی تھی اور دھرنے سے متعلق مختلف امور پر مذاکرات کیے تھے دوسری جانب شیخ جی یہ بھی فرماتے ہیں کہ عمران خان اپنی تحریک کو یعنی دھرنے کو علامہ طاہر القادری سے دور رکھنا چاہتے تھے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر عمران خان اپنی دھرنا تحریک کو طاہر القادری سے دور رکھنا چاہتے تھے تو انہوں نے اس معاملے میں علامہ طاہر القادری سے ملاقات کیوں کی اور دھرنے سے متعلق مذاکرات کیوں کیے۔ گویا دونوں انکشاف ایک دوسرے کی ضد ہیں یوں بقیہ انکشافات اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔
شیخ رشید کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نواز سے ش نکل جائے گا۔ ش تو شیخ رشید کی زندگی سے بہت پہلے نکل چکا ہے۔ اپنی بلا طویلے کے سر منڈ کر شیخ رشید کو ذہنی سکون ملتا ہے تو صاحب مان لیتے ہیں کہ مسلم لیگ سے ش نکلنے والا ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ مسلم لیگ سے ش نکلتا ہے یا ایک اور ش داخل ہوتا ہے عوام کو اس معاملے میں الجھنے کی کیا ضرورت ہے۔ عوام تو شیخ رشید کے بیانات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت مزید مضبوط ہوگی۔ مگر سچ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت مزید کمزور ہوگی۔ مزید کا لفظ تو یہی بتا رہا ہے اور عوام بھی یہی سوچ رہے ہیں۔ شیخ رشید تو لمبی لمبی چھوڑنے کی علت میں مبتلا ہیں مگر ان کی اس خوبی کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا کہ ایک بار جس سے ہاتھ ملا لیا پھر یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑھتی کہ’ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘ جس سے ہاتھ ملاتے ہیں اس کے اقتدار چھوڑنے تک اسے نہیں چھوڑتے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ہاتھ ملایا تو میاں صاحب کے برسراقتدار رہنے تک ہاتھ نہیں چھوڑا، جنرل پرویز صاحب سے ہاتھ ملایا تو شیخ رشید سے شیخ بابا بن گئے اور اب عمران خان سے ہاتھ ملایا ہے تو اس وقت تک ہاتھ نہیں چھوڑیں گے جب تک تحریک انصاف ان کے ہاتھ نہیں دباتی۔