کراچی کے لیے جب سے وزیر اعظم نے گیارہ سو ارب روپے پیکیج کا اعلان کیا ہے، صوبائی اور وفاقی حکومت کے ترجمان ایک دوسرے کے خلاف ایسی بیان بازی کررہے ہیں، جیسے دو سوکنیں آپس میں لڑتی ہیں۔ وفاقی حکومت کے شبلی فراز صاحب کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت کے ذمے داران کو پیسے نہیں دیے جائیں گے ورنہ سب ان کی جیبوں میں چلے جائیں گے، جبکہ صوبائی حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ کراچی ہمارا شہر ہے اس کے سارے ترقیاتی کام ہم کرائیں گے۔ ان بیان بازیوں کی وجہ سے اب تک عملاً کوئی کام شروع نہیں ہو سکا، نالوں کی صفائی کا کام ہو رہا تھا وہ اور نالوں پر سے جو تجاوزات ہٹائی جارہی تھیں وہ کام بھی روک دیا گیا ہے اس لیے کہ جن لوگوں کو ہٹایا جارہا ہے ان کو متبادل جگہ دینا صوبائی حکومت کے ذمہ ہے جب کہ صوبائی حکومت اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ عدلیہ نے بھی ہدایت دی ہے کہ بغیر متبادل جگہ دیے کسی کو نہ ہٹایا جائے، اب یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کام میں تیزی لائے اور گجر نالے پر سے جو لوگ ہٹائے گئے ہیں یا جو آئندہ ہٹائے جائیں گے ان کو متبادل جگہ فراہم کریں۔
پچھلے ماہ کراچی میں جو بارشیں ہوئی ہیں ان سے کراچی ادھڑ کر رہ گیا ہے شدید بارش کو ہوئے تقریباً تیسرا ہفتہ چل رہا ہے لیکن بہت ساری جگہوں پر اب بھی بارش کا پانی بھرا ہوا ہے، کہیں کہیں اس میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہو گیا ہے لیاقت آباد میں بلاک ایک سے چار تک ہر روڈ پر سیوریج کا پانی ایسا بھرا ہوا ہے کہ بائیک رکشا اور کار والوں کو اس پانی سے گزرنا پڑتا ہے اکثر اوقات پیدل چلنے والوں پر اس کی چھینٹیں پڑتی ہیں، نمازیوں کے کپڑے خراب ہو جاتے ہیں، کراچی میں بہت ساری جگہوں پر ایسی ہی صورتحال ہے صوبائی اور وفاقی حکومت کے جو ذمے داران بیان بازیاں کر رہے ہیں وہ عالی شان گھروں میں رہتے ہیں پجارو گاڑیوں میں گھومتے ہیں وہ ان کیچڑ نما گندے پانی میں پیدل چلیں تو انہیں عوام کے دکھوں کا اندازہ ہو۔ ہمیں اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حکومت نے بالخصوص صوبائی حکومت نے اپنے کاموں کی کیا ترجیحات طے کی ہیں ابھی تک عملاً کوئی کام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔
میرے خیال سے حکومت سب سے پہلے جہاں جہاں بارش کا پانی کھڑا ہوا ہے اس کو فوری طور سے صاف کرے، اور اس کی میڈیا میں روزآنہ رپورٹ جاری کی جائے تاکہ کراچی کے شہریوں کو بھی پتا چل سکے حکومتی ادارے کتنے متحرک ہیں اور اس کام کا ایک ٹائم پریڈ بھی مقرر کیا جائے، اس کے بعد دوسرا یہ کام بھی ساتھ ساتھ شروع کیا جاسکتا ہے کہ جہاں جہاں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں ہیں وہاں پر کم از کم پیچ ورک کردیا جائے۔ لیاقت آباد نمبر دس میں الاعظم سے فردوس تک پل کے ساتھ جو سڑک ہے وہ برسوں کے بعد تو تعمیر ہوئی تھی، وہ سڑک ہر وقت ٹوٹی پھوٹی رہتی تھی جبکہ اس پر ٹریفک کا دبائو بھی بہت زیادہ رہتا ہے جب پانی کی لائن واٹر بورڈ والوں نے کافی پانی ضائع کرنے کے بعد درست کردیا تو اس کے بعد بھی مہینوں وہ سڑک ویسی ہی ٹوٹی رہی، مہینوں کے بعد اس سڑک کے بننے کا نمبر آیا اور وہ بن گئی تو اب بارشوں نے اس کو دوبارہ کئی جگہ سے توڑ دیا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی ہے۔ اسی طرح لیاقت آباد میں دس نمبر میں پل کے نیچے دو جگہ سے سڑک بیٹھ گئی ہے جب کہ اس کے نیچے انڈر پاس بھی جارہا ہے اس کو فوری طور سے دیکھنے کی ضرورت ہے ورنہ کسی وقت بھی کوئی خوفناک حادثہ ہو سکتا ہے۔ کراچی کے کئی مقامات پر ایسی ہی صورتحال ہے اس لیے متعلقہ محکمے کو اس کی بھی ترجیحات مرتب کرنا چاہیے کہ کس سڑک کو پہلے بنایا جائے۔
تیسرا کام سیوریج کے نظام کو بہتر کرنا ہے۔ اس کے لیے بھی طویل المدت اور قلیل المدت منصوبے بنائے جاسکتے ہیں، جن آبادیوں میں کم لاگت سے سیوریج کاکام کرکے آبادی کے بڑے حصے کو مطمئن کیا جاسکتا ہو وہاں پر پہلے یہ کام کیا جائے اس کے لیے بھی ایک ٹائم پریڈ طے کیا جائے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ کی قیادت میں جو کمیٹی بنائی ہے اس کمیٹی میں دو کام کرنے کی ضرورت ہے پہلا تو یہ کہ وزیر اعلیٰ اپنی کمیٹی میں جماعت اسلامی کے ایک نمائندے کو شامل کریں جو ان کے لیے مددگار ثابت ہوں گے اسی طرح دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ نیچے ہر ضلع کی سب کمیٹیاں بنائی جائیں اور ان میں بھی ایک نمائندہ مقامی جماعت اسلامی کے نظم سے لیا جائے۔ میں نے جماعت اسلامی کی نمائندگی کی جو تجویز دی ہے وہ کوئی جذباتی تجویز نہیں ہے بلکہ ہر سطح پر جماعت کے نمائندے اس پورے کام کی ایک چوکیدار کی طرح نگرانی کریں گے اور انہیں اگر وزیر اعلیٰ کی طرف سے کچھ اختیار دیا جائے تو یہ ہر جگہ کام میں تیزی لا سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے دو مرتبہ یعنی تقریباً تیرہ چودہ برس اس شہر کی خدمت کی ہے جماعت کے کارکن ایماندار اور محنتی ہوتے ہیں ان کو اگر کمیٹیوں میں شامل کیا جائے گا تو یہ حکومت کے لیے فائدہ مند ہوگا۔