سربراہ حزب المجاہدین کے خلاف بھارتی الزام تراشی

475

کشمیری امن پسند، صلح جُو، مہمان نواز اور وفادار لوگ ہیں۔ برصغیر میں پاکستان کی تحریک جاری تھی تو انہیں پورا ایمان تھا کہ جب برصغیر تقسیم ہوگا تو مسلم اکثریت کی بنیاد پر وہ پاکستان کا حصہ ہوں گے۔ چناں چہ جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو انہوں نے اپنے گھروں پر پاکستان کا پرچم لہرا کر جشن منایا اور سڑکوں پر نکل کر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ بھارت مہاراجا کشمیر کے ساتھ ساز باز کرکے کشمیر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو وہ میدان میں نکل آئے اور قبائلی مجاہدین کی مدد سے ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرانے میں کامیاب رہے۔ بھارت نے جب یہ دیکھا کہ کشمیر اس کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے تو وہ جنگ بندی کی اپیل لے کر اقوام متحدہ میں چلا گیا جہاں اس نے اقوام عالم کے سامنے وعدہ کیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے واشگاف انداز میں اعلان کیا کہ کشمیری عوام کی مرضی کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، وہ جو کہیں گے اسی پر عمل ہوگا۔ ان واضح یقین دہانیوں کے نتیجے میں جنگ بندی عمل میں آگئی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت میں متعدد قراردادیں منظور کرکے بھارت کو اس بات کا پابند کردیا کہ وہ ان قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور منصفانہ و آزادانہ رائے شماری کے انعقاد میں اقوام متحدہ سے تعاون کرے لیکن بھارت نے جنگ بندی ہوتے ہی ریاست جموں و کشمیر میں اپنی فوجی قوت میں اضافہ کردیا اور آزادانہ رائے شماری کے انعقاد میں ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔ اقوام متحدہ نے رائے شماری کے لیے باقاعدہ کمشنر کا تقرر بھی کیا لیکن بھارت نے اس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا۔
بھارت کی تمام تر وعدہ خلافیوں اور کہہ مکرنیوں کے باوجود کشمیری عوام اور ان کے قائدین پُرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے انہیں اُمید تھی کہ اس جدوجہد کے نتیجے میں عالمی ضمیر جاگے گا اور اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل بھارت پر دبائو ڈال کر اسے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے پر مجبور کردے گی۔ اس اُمید پر کشمیری قائدین مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لیتے رہے تا کہ وہ اس اسمبلی کے ذریعے کشمیری عوام کی آواز بھارت اور پوری دنیا تک پہنچائیں اور کشمیر کی آزادی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں ان کی آخری کوشش مسلم متحدہ محاذ کی صورت میں رونما ہوئی۔ آزادی کی جدوجہد میں شریک تمام کشمیری جماعتوں کے اس متحدہ محاذ کا مقصد 1987ء کے ریاستی انتخابات میں حصہ لے کر اسمبلی کے ذریعے کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کرانا اور یہ اعلان کرنا تھا کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اقوام متحدہ ان کی اس خواہش کو عملی شکل دینے کے اقدامات کرے۔ مسلم متحدہ محاذ کو کشمیری عوام میں غیر معمولی پزیرائی حاصل تھی اور یہ مشہور تھا کہ مسلم متحدہ محاذ انتخابات میں کسی کھمبے کو بھی کھڑا کردے گا تو وہ جیت جائے گا۔ 1987ء کے ریاستی انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے جن ممتاز رہنمائوں نے حصہ لیا ان میں سید گیلانی کے علاوہ سید صلاح الدین بھی شامل تھے۔ محاذ کے تمام امیدوار بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے لیکن بھارت کی انتظامیہ، کٹھ پتلی ریاستی حکومت اور قابض بھارتی فوج نے جبر و تشدد، دھاندلی اور غنڈہ گردی کے ذریعے پورے انتخابات کو ہائی جیک کرلیا۔ سید صلاح الدین کے انتخابی نتیجے کو نہ صرف روکا گیا بلکہ انہیں گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ بھارت امن کی زبان سننے اور سمجھنے کا روادار نہیں ہے، اس سے ہتھیاروں کی زبان میں بات کرنا پڑے گی۔ چناں چہ انہوں نے بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کے لیے عسکری تنظیم ’’حزب المجاہدین‘‘ کے قیام کا اعلان کیا اور اپنے خلاف انتقامی کارروائی سے بچنے کے لیے ہجرت کرکے آزاد کشمیر آگئے جسے آزادی کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے۔ وہ گزشتہ تیس سال سے بیس کیمپ میں بیٹھ کر کنٹرول لائن کے پار اپنے مجاہدین کی قیادت کررہے ہیں جو قابض بھارتی فوجوں سے لڑ رہے ہیں اور شجاعت و دلیری کی عدیم النظیر مثالیں قائم کررہے ہیں۔ ’’حزب المجاہدین‘‘ کشمیری نوجوانوں کی عسکری تنظیم ہے، اس کا تنظیمی ڈھانچہ اور اس کی افرادی قوت مقبوضہ کشمیر میں ہے اور اس کی تمام تر عسکری جدوجہد اقوام متحدہ کے منشور کے عین مطابق ہے جو مظلوم قوموں کو اپنی آزادی کے لیے اس جدوجہد کا حق دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب نائن الیون کے بعد امریکا نے پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف پر دبائو ڈال کر پاکستان (BASED) بیسڈ جہادی تنظیموں پر پابندی لگوادی اور بھارت نے کنٹرول لائن پر خاردار باڑھ لگا کر مجاہدین نقل و حرکت روک دی تو حزب المجاہدین پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا کیوں کہ اس کا سارا کام مقبوضہ کشمیر میں تھا اور پاکستان سے اس کا کچھ لینا دینا نہ تھا البتہ حزب المجاہدین کو پاکستانی عوام کی اخلاقی حمایت ضرور حاصل تھی اور ہے۔ امریکا پاکستان میں جہادی تنظیموں پر پابندی لگوانے کے بعد خاموش نہیں رہا، اس نے ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کے پیچھے لگادیا یہ عالمی ادارہ پوری دنیا میں مبینہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے کام کررہا ہے اور جو ملک اس میں ملوث پایا جائے اسے بلیک لسٹ کرکے اس پر اقتصادی پابندی لگادی جاتی ہیں۔ پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پر ہے اور بھارت کی کوشش ہے کہ اسے بلیک لسٹ کردیا جائے۔ چناں چہ اُس نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں ایک جعلی دستاویز پیش کرکے حزب المجاہدین کے سربراہ اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین کو پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کا ایجنٹ اور ملازم ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح ایک طرف بھارت نے پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا جھوٹا الزام لگا کر اسے بلیک لسٹ کرانے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف کشمیر کی تحریک آزادی اور اس کی قیادت کو بدنام کرنے کا مذموم حربہ استعمال کیا ہے۔ پاکستان تو بھارت کی اس اوچھی حرکت کا جواب دے گا
ہی، سید صلاح الدین نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت تحریک آزادی کشمیر اور اس کی مخلص قیادت کو بدنام کرنے کی پہلے بھی کوشش کرتا رہا ہے اور اب بھی اس نے اسی کوشش کو دہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی الزام کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے اللہ کے بھروسے پر اور اپنے ہموطنوں کی عملی تائید و حمایت سے بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف برسرپیکار ہیں اور اپنی آخری سانس تک یہ جنگ جاری رکھیں۔ سید صلاح الدین نے کہا کہ ان کا پاکستان کی حکومت یا اس کی کسی ایجنسی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ متحدہ جہاد کونسل کے ترجمان صداقت حسین نے بھی بھارتی الزام کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ سید صلاح الدین تحریک آزادی کے نہایت مخلص رہنما ہیں اور بھارتی الزام تراشی سے ان کے کردار کو مسخ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی الزام تراشی کا مقصد ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کے خلاف دبائو میں لانا اور اس سے کوئی ناگوار فیصلہ کرانا ہے۔
بہرکیف بھارت پاکستان کے خلاف تمام حربے آزما رہا ہے اور ان حربوں کو ناکام بنانا پاکستان کا کام ہے۔