امریکی انتخابات میں کامیابی کے لیے ایک مرتبہ پھر صدر ٹرمپ اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو حالات کو اپنے حق میں تبدیل کرنے لیے بہت سرگرم نظر آرہے ہیں اور وہ طالبان مذاکرات کے شروع ہوتے ہی دوحا سے قبرص روانہ ہوگئے ان کے پہنچتے ہی ترکی نے مشرقی بحر روم میں اپنی سرگرمیاں کم کردیں۔ اس سلسلے میں Bloomberg کا کہنا ہے کہ:
Pompeo say worried by Turkish Auctions in East Mediterranean
لیکن طیب اردوان نے براہ راست اپنے خطاب میں فرانسیسی صدر میکرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فرانس بحر روم کے معاملات میں ترکی سے دور رہے۔ france 24 کا کہنا ہے کہ: Erdogan Warns not to mess with Turkey amid Mediterranean tension فرانس کے TRT World نیوز کا کہنا ہے کہ: Erdogan Warns Macron not to Mess with Turkey ترکی کے اخبار ڈیلی نیوز کا کہنا ہے کہ ’’میکرون سے براہ راست فرانس کے صدر نے کہا کہ میکرون ہمیں قطعی طور پر انسانیت کا درس نہ دیں‘‘۔ اخبار ڈیلی نیوز کی خبر کچھ اس طرح ہے کہ: you cannot Lecture us on humanity , says Erdon to Micron
اُدھر امریکی وزیرِخارجہ مائیک پومپیو نے قبرص پہنچنے سے قبل دوحا میں یہ اعلان کردیا تھا کہ ’’ترکی میں موجود ناٹو کے ائر بیس پر موجود 50 ایٹم بم اور ناٹو کے دیگر حربی آلات اور بھاری اسلحے کو ’’ترکی‘‘ کے دشمن ملک ’’یونان‘‘ میں منتقل کر رہا ہے۔ اس سے قبل بھی صدر ٹرمپ نے بھی ترکی سے ناٹو کے اڈے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے جواب میں ترکی کے صدر طیب اردوان نے صاف انکار کردیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ ترکی بھی ناٹو کا رکن ہے اور اس کا بھی اس ائربیس پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ناٹو کے دیگر ممالک کا ہے۔ امریکا ناٹو کے تحت ترکی ائربیس کو 1955ء سے استعمال کررہا ہے۔ یہ وہی ائربیس ہے جہاں سے طیب اردوان کے خلاف ہونے والی بغاوت کی نگرانی اور باغی افواج کی بہت بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا۔ بغاوت کے وقت یہ ائربیس طیب اردوان کی مخالفت میں استعمال کی جارہی تھی اور یہ سب کچھ ’’ناٹو‘‘ کی افواج کررہی تھیں جو اس وقت ائربیس میں موجود تھیں جس کے بعد طیب اردوان نے ناٹو کی افواج کو وہاں سے نکال دیا تھا اور ائر بیس پر ترکی کا مکمل قبضہ ہوگیا۔ اس ائر بیس پر ترکی کے ایف 16 طیاروں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور اس میں ناٹو کے ایف 16 طیارے بھی موجود ہیں۔ یہ ساری کارروائی ایک جانب ترکی کو کمزور اور دوسری جانب ترکی کے مخالف یونان کو مضبوط بنانے کی کوشش ہے تا کہ بحر روم میں ترکی کے زیر سمندر وسائل پر قبضہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ’’بحرِ اسود‘‘ کے زیر ِسمندر بحری ذخائر پر قبضہ کے لیے فرانس تیزی دکھا رہا ہے۔
ترکی کے خلاف محاذ تیار کرنے میں اسرائیل سب سے آگے ہے اور اس نے رواں سال کے آغاز میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میںترکی کو اسرائیل کے لیے سیکورٹی رسک قرار دیتے ہوئے ترکی کا نام نیشنل سیکورٹی لسٹ میں شامل کیا تھا اور کہا تھا ترکی پورے عالم عرب اور اسرائیل کے لیے خطرناک بنتا جارہا ہے۔ ترکی کے خلاف ہونے والی تمام کارروائی سے جرمنی مکمل طور سے الگ تھلگ ہے اور چین بھی اس مسئلے میں ’’امریکا یا یونان‘‘ میں سے کسی کی حمایت نہیں کررہا ہے۔ چین کی خاموشی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت چینی ایغور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہے جن کی تعداد 12 لاکھ بتائی جارہی ہے اور اس کے باوجود ترکی چین کے خلاف اور ایغور مسلمانوں کی حمایت میں نہیں بولتے۔ اس وجہ سے چین خاموش ہے۔ لیکن امریکا کی مجبوری انتخابات ہیں امریکی صدر اور ان کے ساتھی 29 ستمبر کو پہلے صدارتی مباحثے سے قبل ایسا کچھ کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں جس کو صدارتی بحث میں شامل کرکے امریکیوں کو بتایا جائے کہ ٹرمپ نے دنیا میں امن و سکون اور خاص طور پر اسرائیل کو محفوظ بنانے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔
انتخابی سروے کے مطابق جوبائیڈن کو 53 سے 55 فی صد امریکیوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے مدمقابل ٹرمپ کو 40 سے 41 فی صد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ اسی عجلت میں ٹرمپ ترکی کے خلاف 29 ستمبر سے قبل کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کے ووٹرز متاثر ہوں۔ ٹرمپ انتظامیہ اسی مقصد کے لیے افغان انٹرا مذاکرات کا آغاز بھی کرچکی ہے جو دوحا میں جاری ہیں۔ جہاں مذاکرات مکمل طور پر ڈیڈ لاک سے د وچار ہیں۔ ان مذاکرات میں کامیابی کی صورت میں اشرف غنی اور ان کا ٹولہ مکمل طور سے فارغ ہوجائے گا۔ امریکا اسی ماہ افغانستان سے فوج کم کرکے 8 ہزار سے 4 ہزار 500 کرنے جارہا ہے اور عراق میں بھی 5 ہزار 300 تک کمی کا امکان ہے۔ یہ پوری صورت حال بتارہی ہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے فیصلے کو ٹرمپ مزید آگے بڑھانے میں مصروف ہیں اور اس کامیابی کے لیے ترکی پر حملہ یا سعودی عرب سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے شاہ سلمان کو راستے سے ہٹانے پر بھی غور کرسکتے ہیں۔ شاہ سلمان اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور یہ بات طے ہوچکی ہے کہ شاہ سلمان کی موجودگی میں اسرائیل کو تسلیم کرنا ناممکن ہے۔ مائیک پومپیو قبرص سے امریکا واپس پہنچ گئے ہیں اور افغانستان کے خصوصی نمائندے ’’زلمے خلیل زاد‘‘ پاکستان اور اس کے بعد بھارت چلے گئے جہاں چندگھنٹوں قیام کے بعد وہ امریکا روانہ ہو گئے۔ انتخابی دوڑ میں ٹرمپ انتظامیہ کا اب صرف ایک ہی زور ہے کہ وہ ترکی کے خلاف کوئی ایسی کارروائی کرے جس پر امریکی عوام کو یقین ہو سکے آئندہ چار سال میں امریکا دنیا میں اپنا کھویا ہو ا مقام دوبارہ حاصل کر سکے گا۔
امریکا کی اب یہ بھی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ صدر ٹرمپ نے پیر کی رات مراکش کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور یہ بھی بتایا کہ مراکش نے اسرائیل کے لیے فضائی حدود کھول دی ہیں۔ یہ شمالی افریقا کا پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ صدر ٹرمپ اور جوبائیڈن کے درمیان دوسرا صدراتی مباحثہ 15اکتوبر اور آخری مباحثہ 29اکتوبر کو متوقع ہے جس کے بعد 3نومبر کو انتخابات ہوں گے اس لیے عالم عرب اورشمالی افریقا کے ممالک میں 29اکتوبر تک بہت ساری تبدیلیاں متوقع ہیں جن کے لیے امریکا بہت تیزی میں ہے لیکن عالم اسلام کو بہت کچھ سوچ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا صرف اور صرف یہی مطلب ہے کہ مسلمانوں کی قبر کھودنے میں اس کی ہر طرح سے مدد کی جائے۔
عالم عرب کے حکمرانوں کو یاد ہوگا کہ بنو امیہ اور بنو عباس عربوں کے حکمران تھے لیکن سیکڑوں سال گزرنے باوجود لوگ ان کے اعمال نہیں بھولے۔ وہ اپنی تمام تر نیکی اور برائی کے ساتھ تاریخ میں موجود ہیں اور تم بھی رہو گے۔