ہمدردی کا مطلب دال میں نہیں دال کالی ہے

275

جرائم ہیں کہ مسلسل بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور اب تو یہ عالم ہو گیا ہے کہ کچھ سنگین جرائم مشغلوں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ جرم ایک عام انسان کرے یا قانون نافذ کرنے والے ادراے، جرم ہی ہوتا ہے۔ بے شک کوئی جرم کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو لیکن قانون سازی کے وقت قانون سازوں کی نگاہوں سے اس جرم کے خلاف کوئی قانون سازی ہی نہ کی ہو تو محض اپنی جانب سے یہ قیاس کرلینا کہ اس میں فرد یا اداروں کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہے، میرے نزدیک یہ عمل ماورائے آئین ہی کہلا ئے گا۔ انسان زندگی کو باضابطہ بنانے کے لیے کتنی ہی قانون سازی کر لے، زندگی کے ہر موڑ پر اسے یہ احساس ہوتا رہے گا کہ قانون سازی کے عمل میں کچھ نہ کچھ کمیاں رہ ہی گئی ہیں لہٰذا ان پر بھرپور نظر رکھنا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ان میں کمی یا بیشی کرتے رہنا ہی قوموں کو عروج کی جانب لے جانے کا سبب بنتا ہے اور جو قومیں ان پر توجہ نہیں دیتیں اور اپنے ہاتھوں بنائے ہر ضابطے کو حرف آخر سمجھ بیٹھتی ہیں ان کا آئین و قانون تالاب کے ٹھیرے ہوئے اس پانی کی طرح ہو جاتا ہے جو بالآخر بو دینے لگتا ہے۔
پاکستان میں ہونے والے مسلسل ایسے واقعات جو کسی بھی مہذب معاشرے کی عقل و سمجھ سے ماورا ہیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارا آئین اور قانون شاید دنیا کے ہر آئین و قانون سے زیادہ نامکمل ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب آئین میں ترامیم یا آئین سازی کی باتیں سامنے نہیں آ رہی ہوتیں۔ قانون میں بڑے بڑے خلاؤں کی وجہ سے ہی نہ تو مجرموں پر کوئی گرفت عمل میں آ پاتی ہے اور نہ ہی ان کو ان کے جرم کے مطابق سزا دینا ممکن ہو پاتا ہے۔ آئین و قانون میں موجود ان کمزوریوں کی وجہ سے جرائم کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور لگتا ہے ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ہماری عدالتیں تک ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہیں جن کا کوئی تعلق بھی پاکستان کے آئین اور قانون سے نہیں ہوتا۔
زنا جیسے سنگین جرم پر بھی اگر آئین وقانون بنائے جانے کے 47 سال بعد یہ بحث کی جا رہی ہو کہ اس جرم کے مرتکب فرد کو کس قسم کی سزا دینی چاہیے تو یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ اسی طرح کے بے شمار سنگین جرائم کے خلاف سزاؤں کا یا تو کوئی تعین ہی نہیں کیا گیا ہے یا پھر وہ سزائیں جرم کی سنگینی کے مقابلے میں کہیں کم ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ موٹر وے پر خاتون کے
ساتھ زیادتی کرنے والوں کو سرِ عام پھانسی دی جا سکتی ہے یا نہیں تو کیا ایسا کرنے والے کو سرِ عام نہ سہی، پھانسی بھی دی جا سکتی ہے؟۔ زینب کیس میں مجرم کو پھانسی دی گئی لیکن کیا اسے صرف زیادتی کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی یا زیادتی کے بعد قتل پھانسی کا سبب بنا۔ قتل کرنا، زیادتی کرنا، چوری کرنا اور شراب پینا ایسے جرائم ہیں جس کی سزائیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں طے کر دی ہیں۔ ایک ایسا ملک جسے بنانے کا مقصد ہی اللہ کے نظام کا نفاذ تھا اگر اس ملک میں بھی صرف جرائم کے خلاف اللہ کی مقرر کردہ حدود نافذ نہیں کی جا سکتیں تو پھر اس ملک کا نام ’’پاکستان‘‘ ہی کیوں ہے، مصر، سوڈان، افغانستان یا بنگلا دیش کیوں نہیں۔
یہ تو طے ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو، اس کا نظامِ حکومت صدارتی ہو، شاہی ہو، پارلیمانی ہو یا ’’جو میں کہوں‘‘ ہی کیوں نہ ہو، وہاں جرائم کی روک تھام کے لیے آئین و قانون تو لازماً بنتے ہوںگے۔ جب ہر قسم کے جرم پر بنا سخت سے سخت سزا دیے جرم کو محدود کرنا ممکن ہی نہیں تو پھر ہمارے حکمرانوں کو قرآن کی مقرر کردہ سزاؤں سے ہٹ کر اپنی عقل و سمجھ کے مطابق سزائیں بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ رہا انسانی اور غیر انسانی سزاؤں کا معاملہ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرِ بازار یا گھروں میں کود کر کسی کے ساتھ انفرادی یا اجتماعی زیاد کرنا، چوری کرنا، قتل کرنا یا امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنا انسانیت کے عین مطابق ہے؟۔ کیا چین میں تقریباً ہر جرم کی کم سے کم سزا، سزائے موت نہیں۔ کیا سعودی عرب میں سرِ عام ہاتھ یا سر قلم نہیں کیے جاتے۔ کیا دیگر ممالک میں مجرموں کو لوگوں کے ہجوم کے سامنے گولیاں نہیں ماری جاتیں۔ اسے طرح سرِ عام پھانسی دینے پر کچھ جماعتوں اور رہنماؤں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھنے لگتا ہے۔
قرآن نے نہ صرف سخت سزائیں دینے کا حکم دیا ہے بلکہ صاف صاف کہہ دیا ہے کہ مجرموں سے کسی قسم کی ہمدردی کا اظہار تک نہ کیا جائے۔ اول تو اسلامی ملک ہونے کے ناتے ہر جرم میں وہی سزائیں دی جانی چاہئیں جن کا ذکر قرآن میں کردیا گیا ہے لیکن اگر اپنی جانب سے ہی کوئی قانون بنایا جائے تو مجرموں سے ہمدردی کا اظہار کرنے والوں کو بھی ویسی ہی سزائیں سنائی جانے کا اضافہ کر دیا جائے تاکہ کسی کی ہمت ہی نہ ہو سکے کہ کوئی جرائم پیشہ افراد سے ہمدردی جذبہ رکھ سکے۔ دراصل مجرموں سے ہمدردیوں کا اظہار ہی جرائم کے فروغ کا سبب ہے۔ یاد رہے کہ جرم کی نوعیت معمولی ہی کیوں نہ ہو، سزاؤں میں نرمی کسی صورت بھی جرائم کے آگے بند نہیں باندھ سکتی اس لیے سزائیں سخت سے سخت اور سرِ عام دی جائیں تاکہ دیکھنے والوں کو بھی عبرت حاصل ہو سکے۔