آزادی کے پھندوں میں دم بخودمیڈیا

286

عمر خیام کی ایک رباعی تنگ کررہی ہے۔ ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
اٹھو اور آئو، آئو میرے دل کے لیے
اب اپنے حسن وجمال سے میری مشکل حل کرو
میرے لیے مے کا ایک پیالہ لے آئو
کہ میں اسے پی جائوں
اس سے پہلے کہ میری مٹی سے پیالے بننے لگیں
اس عملی دنیا میں ہماری بے حس سوچ اور درماندہ ذہن کی اوقات اس مٹی سے بھی گئی گزری ہے جس سے پیالے بنتے ہیں اس پر طرہ مٹی کی مورتیوں جیسے ہمارے حکمران جن کے قوت فیصلہ سے عاری ہاتھوں میں ہماری قسمت کی ڈور تھمادی گئی ہے۔ جنہیں عوام کی مشکل حل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ آتا ہے، نئے نئے عذر تراشنا۔ یوٹرن لینا۔
میر قمرالدین منت دلّی میں ایک شاعر گزرے ہیں۔ دربار شاہی سے منسلک تھے۔ میرتقی میر کے زمانے میں شاعری آغاز کی تھی۔ شعر کہنے کا بہت شوق تھا۔ اصلاح کے لیے میر صاحب کی خدمت میں ایک غزل لے گئے۔
میر صاحب نے وطن پوچھا؟
انہوں نے سونی پت بتلایا۔
میر صاحب نے فرمایا ’’سید صاحب اردو معلی خاص دلی کی زبان ہے۔ آپ اس میں تکلیف نہ کیجیے، اپنی فارسی وارسی کہہ لیا کیجیے‘‘۔
ہم زوال کی طرف سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ ہمارے مسائل حکمرانوں کی صلاحیتوں سے بہت زیادہ ہیں۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ ہمارا ٹائی ٹینک برفانی تودے سے ٹکرانے کے عالم میں ہے۔ کاش اس وقت تو ہم اپنے شیروں سے کہہ سکتے کہ آپ سیا ست میں تکلیف نہ کیجیے۔ اپنی مشقیں وشقیں کرتے رہیے۔ کاش ہم ان سے کہہ سکتے کہ آپ نے سیاست میں آکر اپنے قیمتی لہو کو پانی کرلیا ہے۔ ہمیں آپ سے پیار ہے اور بے حدپیار ہے۔ ہم آپ کے لہو کو قیمتی ہی دیکھنا چا ہتے ہیں۔ سیاست کے مردان کار سے بھی کچھ ایسی ہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ فوج کی سمت ہر وقت مدد کے لیے نہ دیکھتے رہا کریں۔ اپنے راکھ کے ڈھیر جیسے جسموں کے لیے فوج سے چنگاری مانگنا بند کریں۔ ہمیں فوج کی بیساکھیوں پر چلنے والے حکمرانوں کی نہیں نعرہ مستانہ لگانے والوں کی ضرورت ہے لیکن کیا کیا جائے ہماری سیاست کے جمہورے یا تو بڑے کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر وہ عمران خان ہیں۔ بلاول جیسے جوان ہیں جو اپنے والد کے سایہ عاطفت میں ہیں۔ پتا ہی نہیں چلتا کب وہ خود سے بول رہے ہیں اور کب والد صاحب کی زبان سے۔ یہ باتیں ہم نے لکھ تودی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں ہمارے حکمران سیاست دان ہوں یا فوجی تبدیل ہونے کی صلاحیت سے خالی ہیں۔ یکسر خالی۔ اپنی تاریخ میں ہم نے عظیم ٹھو کریں کھائی ہیں، نہایت تندہی سے بھارت کے مقابل ہم وطن ہارتے چلے جارہے ہیں لیکن ہم کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب پرویز مشرف کی وجہ سے فوج کی ساکھ متاثر ہورہی تھی لہٰذا فوج نے جنرل پرویز مشرف کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ اس وقت جنرل کیانی نے کوشش کی تھی کہ فوج الیکشن میں مداخلت نہ کرے۔ عمران خان میں نہ جانے ایسا کیا ہے کہ ان کی وجہ سے ہر جگہ فوج کو الزام دیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود فوج پوری سرگرمی سے ان کی حمایت کے لیے کمر بستہ ہے۔ رہے نواز شریف لگتا ہے وہ فوج کی چڑ بن گئے ہیں۔ انہیں اقتدار سے ہٹانے اور اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے پاکستان کو درپیش تمام مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ پسند و ناپسند کے پیمانے ہمیں بہت عزیز ہیں۔ محمود وایاز کو ہم ایک ہی صف میں کھڑا رکھنا نہیں چاہتے۔ مقتدر قوتیںکسی ایک کو اپنے زور بازو سے اٹھاکر امامت کے مقام پر فائز دیکھنے میں ہی اپنی تسکین کا سامان دیکھتی ہیں۔
ملک میں ہر طرف خزاں آلود پتے بکھرے ہوئے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کو سب ہرا ہی ہرا دکھائی دے رہا ہے۔ کشتیاں پانی میں ڈوب رہی ہیں اور وہ سب اچھا ہے بلکہ بہت اچھا کے دعوے کررہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک غیر ملکی ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے پاکستان میں میڈیا کی بے دھڑک آزادی کے دعوے کیے۔ مغرب سے بھی زیادہ آزادی کے۔ ایسے مواقع پر وہ مغربی ممالک میں گزرے اپنے بیس برس کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ وہ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ چونکہ وہ بیس برس یورپ میں رہے ہیں اس لیے وہ مغرب اور مغربی اقدار کو اچھی طرح جا نتے ہیں۔ ان بیس برسوں میں یورپی ممالک میں وہ جو کچھ سرمستیاں اور سرحد پار مداخلتیں کرتے رہے ہیں وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس دوران ان کی دلچسپیوں کا میدان کچھ اور تھا۔ مغرب کی سیاست کے طور اطوار اور میڈیا کی آزادی بہرحال ان کے موضوع نہیں تھے اور اگر تھے بھی تو وہ آج ان پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
جمعہ اور ہفتہ بتاریخ گیارہ اور بارہ ستمبر کراچی میں عظمت صحابہ کے عنوان سے عظیم الشان ریلیوں کا انعقاد ہوا۔ یہ کراچی کی تاریخ کے عظیم ترین اجتماعات تھے۔ ان ریلیوں میں کتنے لاکھ افراد شریک تھے اندازہ کرنا مشکل تھا۔ چاروں طرف لوگوں کے سر ہی سر تھے۔ جمعہ کی ریلی کی قیادت مفتی تقی عثمانی اور مولانا ڈاکٹر عادل خان اور علماء کمیٹی نے کی۔ مولانا عادل خان شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان مرحوم کے فرزند ہیں۔ ہفتے کی ریلی کی قیادت مفتی منیب الرحمن نے کی۔ ان دونوں ریلیوں میں لاکھوں افراد نے انتہائی والہانہ انداز میں صحابہ کرامؓ کی عظمتوں کے نعرے بلند کیے۔ ٹی وی چینلز نے ان عظیم اجتماعات کو ہوا کا جھونکا گزرنے جتنا وقت بھی نہیں دیا۔ ایک غیر اہم خبر کے طور پر یہ اجتماعات چند سیکنڈز ہی ٹی وی چینلز کا وقت لے سکے۔ کسی قابل ذکر یا ناقابل ذکر اینکر پرسن نے ان ریلیوں پر سیر حاصل تو کجا ہلکی پھلکی گفتگو کرنے سے بھی گریز کیا۔ ان ریلیوں سے چنددن پہلے پشاور میں مولانا فضل الرحمن کا جلسہ تھا جس کے شرکاء کی تعداد ملین میں تھی۔ پریس اور الیکٹرونک میڈیا پر اس جلسے کو بھی بقدر اشک بلبل جگہ دی گئی۔ ایک آدھ کے سوا بیش تر اخبارات میں ان ریلیوں کو صفحہ آخر پر جگہ دی گئی۔ کیا یہ تمام اخبارات اور ٹی وی چینلوں کا انفرادی فیصلہ تھایا کسی سرکار کی طرف سے ایسا کرنے کے لیے دبائو اور بہت زیادہ دبائو ڈالا گیا تھا۔ کیسے ممکن ہے کہ میڈیا کے تمام دھڑے ایک ہی رو میں بہنے لگے۔ یقینا کہیں سے حکم عدولی کی صورت میں، میڈیا کے بال وپر نوچنے کے اہتمام وارادے کا اظہار کیا گیا ہوگا۔
حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس مسئلے کی تفہیم سے قاصر ہونے کا تاثر دیتی ہے جب کہ ملک بھر کے عوام کی اکثریت کے پاس اس معاملے میں پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ یہ سیاست نہیں لوگوں کے ایمان کی بات ہے۔ اس مسئلے میں لوگ اپنے جسم وجان کو اینٹ اور پتھر کی جگہ چن دینے کو بھی اعزاز سمجھتے ہیں۔ اگر اس مسئلے میں جانبداری کا یہی رویہ برقرار رہا، ایک فریق کی خود سری کو یو نہی برداشت کیا جاتا رہا، اس کو یوں ہی سایہ عافیت مہیا کیا جاتا رہا، صحابہ کرامؓ کی حرمت کو یونہی پامال کیا جاتا رہا تو معاملات بگاڑ کی اس سمت گا مزن ہو جائیں گے کہ کسی کے چراغوں میں روشنی نہیں رہے گی۔ یہ معاملہ سنجیدگی اور نیک نیتی سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس ملک میں اتحاد اور یگا نگت کی نئی تاریخ رقم کی جاسکتی ہے۔ حکمرانوں کا موجودہ رویہ فتنہ وفساد کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔