مولانا محمد الیاس گھمن
تاریخ الخمیس میں ہے کہ آپؓکی ولادت 3 ہجری رمضان المبارک کے وسط میں مدینہ طیبہ میں ہوئی۔
نام ونسب:
حسن بن علی بن ابی طالب۔ آپ کا نام حسن نبی اقدسؐ کا پسند فرمودہ ہے۔ آپؓ جناب نبی اقدسؐ کی لاڈلی صاحبزادی خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا کے بڑے فرزند ہیں۔ کنیت ابو محمد جبکہ آپ کے القاب سبط رسول، ریحانۃ النبی اور شبیہ بالرسول ہیں۔
مناقب احادیث کی روشنی میں:
جامع ترمذی میں خود سیدنا علی کرمؓ سے مروی ہے: حسنؓ کا جسم مبارک اوپر والے نصف حصے میں رسول اللہؐ کے جسم مبارک سے ملتا جلتا تھا جبکہ حسینؓ نیچے والے نصف حصے کی ساخت پر داخت اللہ کے نبیؐ کے جسم اقدس سے مشابہہ تھی۔
اس مشابہتِ رسول کا اثر فقط جسم کے ظاہر ی اعضاء تک ہی محدود نہ تھا بلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے۔ آپ کی چال چلن، گفتار رفتار، جلوت خلوت، قول وعمل، ایثار وہمدردی، عادات واطوار، خوش خلقی، حسن سلوک، مروت رواداری، شجاعت وعزیمت، دور اندیشی وفر است، حکمت ودانائی، علم وتقویٰ، زہد وورع، خشیت وللٰہیت، محبت ومعرفتِ خداوندی الغرض نبیؐ کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے۔ ان اوصاف کو دیکھتے ہوئے سیدنا حذیفہؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ باذن الہٰی ایک فرشتہ اللہ کے نبیؐ کے دربارمیں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا: ’’حسن وحسین جنت کے نوجوانوں کے سردار بنائے جائیں گے‘‘۔ فرشتے کی یہ بات خدائے ذوالجلال کی محبت کی عکاس ہے اللہ کر یم اپنے ان دو اولیاء کو جنت کے نوجوانوں کے سردار بنائیں گے۔
امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ نے اپنی الصحیح میں ابو بکرہؓ (یہ نام اسی طرح ہے بعض لوگ غلطی سے ابوبکر پڑھتے ہیں) سے نقل کیا ہے کہ سردار دو جہاںؐ منبر پر تشریف فرما تھے آپ کبھی حاضرین کی طرف توجہ فرماتے اور کبھی جناب سیدنا حسنؓ کی طرف شفقت بھری نظروں سے دیکھتے۔ اسی مجلس میں آپؐ نے فرمایا: میرا یہ بچہ (سیدنا حسنؓ) سردار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔
امام ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں ذکر کیا ہے، نعیم کہتے ہیں کہ ابوہریرہؓ نے مجھے فرمایا: جب میں سیدنا حسنؓ کو دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں پُرنم ہو جاتی ہیں۔ پھر واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دن سیدنا حسنؓ دوڑ کر آئے اور جناب رسول اللہؐ کی گود میں بیٹھ گئے رسول اللہؐ کی داڑھی مبارک کو پکڑ کر ’’ازراہِ محبت‘‘ کھیلنے لگے۔ اور رسول اللہؐ ’’ازراہِ شفقت‘‘ اپنا لعاب مبارک حسنؓ کے منہ میں ڈال رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ یہ فرما رہے تھے: اے اللہ! میں حسن سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔ (ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے یہ دعا تین مرتبہ ارشاد فرمائی)۔
جذبہ خیر خواہی:
امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں سیدنا زین العابدینؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک بار سیدنا حسنؓ طواف کر رہے تھے اس دوران میں ایک شخص حاضر ہوا اور کہا کہ ابو محمد! میرے کام کے لیے فلاں شخص کے پاس تشریف چلیں۔ چنانچہ آپ نے طواف کعبہ چھوڑ کر اس کے ساتھ ہو لیے۔ اسے دیکھتے ہوئے ایک شخص نے اعتراض کے طور پر کہا کہ آپ طواف کعبہ جیسی نیکی چھوڑ کر چلے گئے؟ تو سیدنا حسنؓ نے نبی کریمؐ کا ارشاد نقل فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے چلا جائے اور اس کا وہ کام ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو حج اور عمرے کا ثواب عطا فرماتے ہیں اور اگر کام پورا نہ ہو تو عمرے کا ثواب پھر بھی عطا فرماتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں نے حج اور عمرے دونوں کا ثواب حاصل کر لیا ہے۔ اس طرح کے دیگر کئی واقعات آپ کی زندگی میں ملتے ہیں۔
ایک اہم خطبہ :
سیدنا حسنؓ اعلیٰ پائے کے خطیب بھی تھے۔ امام ذہبیؒ رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں حرمازی سے سیدنا حسن بن علیؓ کا کوفہ میں دیا گیا خطبہ نقل کیا۔ جس کا مفہوم یہ ہے: حلم و حوصلہ مندی انسان کو زینت بخشتی ہے۔ وقار؛ اخلاق حسنہ میں سے ہے۔ جلد بازی سے خفت اٹھانا پڑتی ہے۔ جہالت اور عدم برداشت (اخلاقی) کمزوری ہے۔ کمینوں کی صحبت ایک عیب ہے اور فاسقوں سے مل بیٹھنا باعث تہمت ہے۔
ایک خواب اور سانحہ ارتحال:
امام ابن کثیرؒ البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار سیدنا حسنؓ نے خواب دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر قل ھواللہ احد لکھا ہوا۔ جس پر آپ بہت خوش ہوئے بعد میں اس خواب کا تذکرہ مشہور تابعی سعید بن مسیب کے سامنے ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے خود یہ خواب دیکھا ہے تو سیدنا حسن کی زندگی قلیل رہ گئی ہے۔ چنانچہ چند دنوں بعد بقول امام ذہبی آپ کی ایک زوجہ جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی نے آپ کو زہر دیا جس کی وجہ سے آپ چالیس دن برابر اس زہر کے اثر سے بیمار رہے اور بالآخر 49 ہجری کواس دنیا سے کوچ کر گئے۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ امیر مدینہ سعید بن العاص الاموی نے پڑھایا۔ امام ابن حجر مکی نے الصواعق المحرقہ میں لکھا ہے کہ آپؓ کو آپ کی دادی محترمہ جناب سیدہ فاطمہ بنت اسد کے پاس جنت البقیع میں دفن کردیا گیا۔
جنازہ میں خلق خدا کی کثرت:
امام ابن عساکرؒ ثعلبہ بن ابی مالک کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ سیدنا حسنؓ کے جنازے پر اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ اگر کوئی سوئی بھی پھینکی جاتی تو وہ زمین کے بجائے کسی انسان کے سر پر گرتی۔
مقامِ فکر :
آج ہمارے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ رسول اللہؐ نے اپنے بعد ہمیں کیسے عظیم رہنما عطا فرما ئے جن کی عملی زندگیوں سے ہمیں ایثار، ہمدردی، مروت، رواداری، اخلاص، للہیت، جذبہ خیرخواہی اور امت کے اجتماعی مفاد میں اپنی انفرادی اَنا کی تسکین کو قربان کر دینے کا سبق ملتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کی عملی زندگی کو اپنی عملی زندگی بنائیں۔