پاکستانی معیشت پر ایشیائی ترقیاتی بینک کا جائزہ

390

ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں ترقی اور خوشحالی کو بڑھانے، غربت میں کمی کرنے اور معاشرے و سماجی معیار کو بلند کرنے کے لیے دسمبر 1966ء میں قائم کیا گیا جس کا ہیڈ کوارٹر منیلا، فلپائن میں ہے۔ شروع میں اس کے ارکان کی تعداد 31 تھی جو اب 68 ہوگئی ہے۔ لیکن مختلف ممالک کے ووٹوں کا وزن ان کے سرمائے کی تعداد کی بنیاد پر ہے جو انہوں نے اس بینک کا فنڈ قائم کرنے کے لیے لگایا ہے اس حساب سے اس ادارے میں سب سے زیادہ وزن امریکا اور جاپان کا ہے اس کے بعد چین کا نمبر ہے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر آسٹریلیا اور انڈیا ہیں۔
حال ہی میں اس بینک نے جنوبی ایشیائی ممالک کی معیشتوں کا ایک جائزہ پیش کیا ہے اور آئندہ کے لیے پیش گوئی کی ہے کہ آنے والے برسوں میں ان ممالک کی معیشت کیا رُخ اختیار کرے گی۔ اس کے مطابق اگر عالمی سطح پر حالات بہتر ہوتے ہیں کہ کاروباری سرگرمیاں آگے کی طرف جاتی ہیں تو پاکستانی معیشت رواں مالی سال میں 2 فی صد سے ترقی کرے گی جب کہ اس سے اگلے سال 3.5 فی صد تک جاسکتی ہے۔ پاکستان میں کنسٹرکشن کے شعبے میں بہتری کے امکانات ہیں اس کے علاوہ زرعی شعبہ اور چھوٹی صنعتوں کا شعبہ بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے جب کہ مہنگائی اور مالی خسارہ میں کمی آسکتی ہے اور ٹیکسوں کی وصولی اور برآمدات میں اضافے کے امکانات ہیں۔
اس تمام جائزے میں سب سے اہم فیکٹر معاشی ترقی کی شرح یا معاشی نمو یا مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں شرح اضافہ ہے اگر یہ شرح بلند ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں معاشی و کاروباری سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ لوگوں کو روزگار مل رہا ہے جس سے بیروزگاری کم ہورہی ہے لوگوں کی آمدنیوں میں اضافے سے ان کا معیار زندگی بلند ہوتا جارہا ہے۔ چناں چہ دنیا بھر میں کمی ملک کی معاشی کارکردگی کا جائزہ قومی پیداوار کی شرح نمو سے لگایا جاتا ہے، آئندہ سال کے لیے ایشیائی ترقی بینک نے اس شرح کا اضافہ 2فی صد لگایا ہے۔ دوسری طرف آبادی میں اضافے کی شرح میں تقریباً 2 فی صد ہے چناں چہ عملی طور پر یہ اضافے کی شرح صفر کے برابر ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح بنگلادیش میں 7.4 فی صد، انڈیا میں 5.7 فی صد، ویتنام میں 6.4 فی صد، ملائیشیا میں 5.2 فی صد جب کہ پاکستان میں 4.8 فی صد رہی۔
پاکستانی معیشت کو بڑے پیمانے کی صنعتوں، زراعت، برآمدات اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں بہتری لانا ہوگی، بڑے پیمانے کی صنعتیں (LSM) بھی ہیں سیمنٹ، آٹو موبائل، کھاد، بجلی کا سامان، فوڈ پروسیسنگ اور ادویات سازی شامل ہیں اور ان کا مجموعی قومی پیداوار میں 10 فی صد حصہ ہے، خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ یہی وہ شعبہ ہے جس میں ہمارے ملک میں میکنیکل، کیمیکل اور الیکٹریکل کے شعبوں میں انجینئرنگ کی ڈگری لینے والوں نوجوانوں کی کھپت ہے۔ مالی سال 2020-21ء کے شروع کے دو ماہ میں بڑے پیمانے کی صنعتوں میں 5 فی صد بہتری آئی ہے لیکن اس سلسلے میں حکومت کو مختلف مزید رعایتیں دینے اور مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے جس میں سب سے اہم مسئلہ پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ ہے اور اس کی وجہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔
اسی طرح برآمدات میں اضافہ بے روزگاری میں کمی اور زرمبادلہ میں اضافہ کا ذریعہ بنتا ہے۔ پاکستان میں فوڈ پروسیسنگ، کمپیوٹر سوفٹ ویئر، ادویات اور برقی آلات میں ایکسپورٹ میں بہت مواقع ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ٹیکس ریفنڈ میں تاخیر کرنے سے برآمد کنندگان کے پاس سرمایے کی کمی ہوجاتی ہے جس سے ایکسپورٹس متاثر ہوتی ہیں۔
پاکستان میں پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں انڈکس پوائنٹ 42000 سے اوپر چلا گیا ہے۔ اسی طرح بزنس انوسٹمنٹ اور بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافے کی ضرورت ہے اسی طرح پاکستان خوشحالی کی سمت میں گامزن ہوسکتا ہے۔