اسرائیل اور دنیا بھر کے اخبارت اور ویب سائٹ پر فلسطینی علاقے پر اسرائیل کی بمباری کی وجہ یہ بتائی جارہی کہ پہلے حماس نے اسرائیل پر 15راکٹ داغے جن میں سے 13اسرائیل میں گرے۔ لیکن فلسطین میڈیا سروس کے مطابق اصل حقیقت یہ ہے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ کی جانب سے ’’اسرائیل امن معاہدہ‘‘ جس کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’ابراہم ایکارڈ‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس ’’ایکارڈ‘‘ کے بارے میں دستخط سے قبل امریکا اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کا کہنا تھا کہ ’’ابراہم ایکارڈ‘‘ میں فلسطینیوں کے حقوق خیال رکھا گیا ہے لیکن اس کے برعکس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’’ابراہم ایکارڈ‘‘ سے فلسطینی ریاست کو ختم کر دیا گیا ہے اور اس ایکارڈ کے مطابق فلسطینی ریاست کے علاقے میں صرف ایک ریاست اسرائیل موجود ہے۔ ’’ابراہم ایکارڈ‘‘ پر امریکا میں کے وقت کے مطابق دن کے 12بجے اور اسرائیل کے وقت کے مطابق رات کے 7بجے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط ہوئے جس کے فوری بعد اسرائیلی اسپیشل فورس کے اہلکار اور انتہا پسند یہودی ٹولیوں کی شکل میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوگئے اور اس کی بیحرمتی شرع کر دی۔ اسرائیلی اسپیشل فورس کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے بعد یہودیوں کا قانونی حق ہے وہ مسجد اقصیٰ میں عبادت کر سکیں گے۔ اس خبر کے بعد حماس نے اسرائیل پر راکٹ حملہ کیا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی اسپیشل فورس کے اہلکاروں اور انتہا پسند یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روکا جائے۔
جواب میں اسرائیلی فضائیہ نے غزہ کے علاقے میں نہتے فلسطینیوں پر فضائی حملے کیے جس کے نتیجے میں کئی رہائشی عمارتیں تباہ اور درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ دیر البالح اور خان یونس پر بم اور میزائل برسائے گئے۔ بمباری کا سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گھروں سے نکل کر اپنی جانیں بچائیں۔ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جنہیں اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ حماس نے فضائی حملوں پر اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ معصوم شہریوں اور املاک کو نشانہ بنانے سے گریز کرے۔ اسرائیل کو ان حملوں پر سخت جواب دیا جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کے ترجمان نے الزام لگایا فضائی بمباری غزہ سے داغے گئے دو راکٹوں کے جواب میں کی گئی۔
ٹی آر ٹی نیوز فرانس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے 16ستمبر 2020 کو غزہ کی پٹی کے مرکزی علاقے کے کھیتوں پر بمباری کی۔ فلسطینی وزارتِ صحت نے اس حملے کے دوران کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان افخائی ادرعی (Avichay Adraee) نے سماجی میڈیا پیج کے ذریعے اپنے پیغام میں بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی سرحدوں کے اندر راکٹ داغا گیا اور اس کے بعد اسرائیل میں سائرن بجائے گئے تھے۔ اب تک کی اطلاعات ہیں کہ اس میں بہت ساری شہادتیں ہو چکی ہیں اور وقفے وقفے یہ سلسلہ جاری ہے۔
اسرائیل اور ڈونلڈ ٹرمپ کو ’’ابراہم ایکارڈ‘‘ پر دستخط کے وقت یہ بھی پتا ہے کہ اس معاہدے میں مشرقی یروشلم کا ذکر نہیں ہے جس پر اسرائیل نے 1967ء میں قبضہ کر لیا تھا۔ جولائی 1980ء میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت پورے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیدیا۔ 1948ء کے اس معاہدے میں اسرائیل کے مختلف علاقوں پر قبضے کا بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ’’ابراہم ایکارڈ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ علاقے میں ہزاروں سال سے صر ف اور صرف اسرائیل کی ریاست موجود ہے۔
اسرائیل نے فلسطین میں امن کی جب بھی باتیں کیں اس کے فوری بعد فلسطین پر بمباری کی گئی، اس سے ایک بات واضح ہو گئی کہ برسوں کی یہ کہاوت آج بھی درست ہے کہ ’’طاقتور اور کمزور کے معاہدے‘‘ میں صرف طاقتور کو فائدہ پہنچتا ہے۔ 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام سے اسرائیل امن معاہدہ کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس سے اسرائیل کو مضبوط اور عربوں کو کمزور کیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 1949 میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کیے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی۔ 1958ء کو اسرائیل نے صحرائے سینا پر حملہ کر کے اسے مصر سے چھین لیا۔ اس حملے میں برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 6 نومبر کو جنگ بندی کے بعد عربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک عارضی صلح کا معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوا یہ 1967ء تک قائم رہا جب مصر کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے واپس بلالیے گئے۔ 10 جون کو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرا دی اور معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ لیکن یہ بھی ناکام ہوا۔
’’اوسلو ایکارڈ‘‘ کے تحت فلسطین کی خود حکمرانی کا عمل پانچ سال کے عبوری عرصہ تک جاری رہنا تھا جس کے دوران مستقل معاہدے پر بات چیت کی جائے گی۔ تاہم، زمینی حقائق نے ’’اوسلو ایکارڈ‘‘ کے عمل نے دونوں فریقوں کو گہرا مایوس کردیا۔ اسرائیل اور فلسطینیوں نے اوسلو ’’امن عمل‘‘ کی ناکامی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا ہے۔ اوسلو معاہدوں پر دستخط کے فوراً بعد پانچ سال میں، 405 فلسطینی اور 256 اسرائیلی ہلاک ہوگئے، جو بعد میں پندرہ سال سے مشترکہ ہلاکتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس معاہدے کی خاص بات یہ تھی کہ اس امن معاہدے کے روح رواں ’’بنجمن نیتن یاہو‘‘ تھے اور ان کے ساتھ گواہ امریکی صدر بل کلنٹن تھے اور فلسطین کی جانب سے پی ایل او کے صدر یاسر عرفات نے دستخط کیے تھے لیکن نتیجہ صفر تھا۔ جولائی 2000 تک، کیمپ ڈیوڈ میں مشرق وسطیٰ کا ’’امن سربراہ اجلاس امریکا کے صدر بل کلنٹن، اسرائیلی وزیر اعظم ایہود بارک اور فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات کے مابین ہوا۔ بات چیت بالآخر ہر ایک دوسرے پر الزام لگانے سے ناکام ہوگئی۔ معاہدے میں چار بنیادی رکاوٹیں تھیں، علاقہ، یروشلم اور ٹیمپل ماؤنٹ، مہاجرین اور واپسی کا حق، اور اسرائیلی سلامتی کے تحفظات۔ آج بھی رکاوٹ یہی ہے اور جب تک یہ صورتحال رہی گی کامیابی ممکن نہیں۔
اسرائیلی اخبارات نے دو دن قبل ہی سرخیوں میں لگایا تھا کہ ’’پاکستان‘‘ بھی اسرائیل کو تسلیم کر رہا ہے لیکن وزیر اعظم عمران خاں نے اس کے فوری بعد ایک مرتبہ پھر یہ اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں کے اطمینان کے بغیر پاکستان کسی کے دباؤ یا کسی کے کہنے پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کر ے گا۔ یہی ایک موقف ہے جس کے بعد کسی دلیل کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، اللہ پاکستان کوہمت عطا فرمائے۔