ہماری جتنی بھی کالم نگاری ہے اس میں عمل دخل سارا ہاشمی صاحب کا ہے۔ ان کی رہنمائی بہت رہی اس کی ابتدا کا سہرا البتہ صلاح الدین صاحب کے سر ہے۔ انہوں نے ایک سرکلر نکالا اور اس میں کہا گیا کہ ادارتی عملے کا ہر کارکن مہینے میں دو تین مضامین لکھے گا۔ ہم سے بھی یہی مطالبہ تھا۔ ہم نے ہاشمی صاحب سے کہا کہ کیسے لکھوں، کہنے لگے ابھی تم لکھو نہیں۔ تمہارا ترجمہ اچھا ہے ایسا کرو عرب نیوز سے ترجمہ کرو۔ ایک نیا نیا لکھنے والا روس چین کشیدگی، مشرق وسطیٰ کے معاملات، کبھی تیل کے بحران پر اور کبھی یورپ پر تنقید۔ لوگ حیران بھی تھے اور ہماری دھاک بیٹھنے لگی۔ ہاشمی صاحب سے کہا کہ لوگ پتا نہیں کیا سمجھتے ہوں گے۔ تو کہنے لگے بھائی صاف لکھا ہوا ہے ترجمہ: مظفر اعجاز۔ تو اس میں شرم کی کیا بات ہے۔ (اب تو لوگ ترجمہ لکھتے ہی نہیں اپنے نام سے چھاپ دیتے ہیں) اچھا اب ایسا کرو ان مضامین کو پڑھ کر ان پر تبصرہ لکھو پھر یہ ترجمہ نہیں رہے گا۔ ہاں حوالہ ضرور دینا کہ فلاں جگہ یہ لکھا ہے۔ یہ گائڈ لائن وہ ہمارے لیے نہیں تھی کئی صحافی دوستوں کو جب مشورے دیتے تو یہی بتاتے کہ کبھی حوالے کے بغیر دوسرے مضمون کو اپنے نام سے مت لکھنا۔ اس وقت تو انٹرنیٹ وغیرہ نہیں تھے لیکن کہتے تھے پڑھے لکھے لوگوں میں وقعت نہیں رہے گی۔ جاہلوں کے سردار بن جائو گے۔
آخری دنوں میں تو ہم کالم لکھتے اور اشاعت سے قبل ان کے حوالے کردیتے خواہ تاخیر ہوجائے۔ ہماری کمزوری سے وہ بھی واقف تھے کہ شعر یاد نہیں رہتے اور یاد رہ جائیں تو شعر نہیں رہتے۔ لیکن کہتے تھے کہ تم محل کے اعتبار سے درست شعر کی نشاندہی کرتے ہو۔ ہم شعر درست کردیتے ہیں۔ گزشتہ برس کی بات ہے ایک روز ہاشمی صاحب دفتر آئے تو کچھ مضمحل سے لگے اپنے کمرے میں براہ راست چلے گئے ورنہ ایک دو منٹ ہمارے پاس بیٹھتے تھے۔ تو ہم خود چلے گئے۔ سلام دعا کے دوران چائے آگئی کچھ عجیب سا انداز گفتگو لگا۔ اور جب وہ چائے کا کپ میز پر رکھنے لگے تو قریب تھا کہ وہ کپ ان پر گر جائے ہم نے بڑھ کر کپ کو میز کے درمیان کیا اور پوچھا طبیعت ٹھیک نہیں تو چھٹی کرلیتے۔ اب ان کا پورا جملہ سننے سے پتا چلا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ ہاشمی صاحب یہ کس طرح بات کررہے ہیں۔ کہنے لگے حماد کی نقل کررہا ہوں۔ حماد کی زبان نہیں پلٹتی جس کی وجہ سے اس کا مخصوص انداز ہے۔ میں نے کہا نہیں۔ نہیں کچھ اور مسئلہ ہے آپ چائے کا کپ بھی نہیں پکڑ پا رہے۔ کہنے لگے ارے میاں فالج ہوگیا ہے رات کو۔ تو ہم نے کہا تو پھر یہاں کیوں آئے ہیں، ڈاکٹر کے پاس چلیں۔ بڑے اطمینان سے کہنے لگے ارے چلے جائیں گے ابھی تو ٹھیک ہیں۔ ہم نے فوراً آواز دی مسعود، امین میمن اور ڈرائیور کو بلوایا۔ پھر خود ہی ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔ آغا خان پہنچے پتا چلا کہ دماغ میں خون جم گیا ہے، دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ بی پی بُری طرح متاثر ہے۔ راستے میں ان سے پوچھا کہ گھر والوں کو نہیں پتا۔ تو بتایا کہ شبہہ تھا انہیں میری بیوی خود کینسر کی مریضہ ہے میں اسے کیا بتاتا۔ بہرحال ایک دن آغا خان میں رکے اور کمبختوں نے 93 ہزار کے ٹیسٹ کر ڈالے، دوا تو وہی ملی جو کوئی ڈاکٹر ہزار روپے فیس لے کر دیتا۔ اس کے بعد سے ہم ان کا بہت خیال رکھنے لگے تھے۔ ان سے سخت چیزیں نہیں کھائی جاتی تھیں تو ہم نے اس کا حل یہ نکالا کہ راستے میں دکان سے جلیبیاں لاتے اور چائے والے سے دودھ کا ایک کپ منگواتے ایک پلیٹ میں دودھ جلیبی رکھ دیتے۔ پہلے پہل تو ہاشمی صاحب ہمیں بھی کھانے میں شریک کراتے لیکن ہم نے بتایا کہ یہ صرف آپ کے لیے ہے، وہ بڑی رغبت سے کھاتے تھے۔ جس وقت وہ دفتر آتے تو مضمحل ہوتے لوگ کہتے کہ انہیں آرام کرنا چاہیے لیکن ان کا مزاج ہم جانتے تھے ہماری خواہش تھی کہ شام کو آٹھ بجے آئیں اور بارہ بجے چلے جائیں تا کہ دل بہلارہے۔ لیکن وہ تو آنے کے بعد جانے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ ڈرائیور کو چھ بجے بلانے پر مصر رہتے اور ہم چپکے سے تاخیر کرواتے تھے تا کہ ان کو کم سے کم وقت دفتر میں بیٹھنا پڑے۔ لیکن جتنی دیر بیٹھتے پوری تندہی سے کام کرتے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ آخری دنوں میں وہ ہر لفظ کی اصلاح نہیں کرتے تھے بلکہ ایک اعتبار سے ہتھیار ڈالنے لگے تھے۔ البتہ ہمارے لیے کوئی رعایت نہیں تھی اسی طرح نیوز ڈیسک کے سب ایڈیٹرز کے لیے بھی۔ کوئی غلط لفظ شائع ہوجائے تو اس کے مصنف سے ملاقات کی خواہش ضرور کرتے تھے۔