کومت اسلام آباد کی آل پارٹیز کانفرنس پر بھی اپنی رٹ برقرار نہیں رکھ سکی اور بقول وفاقی وزرا مجرموں کا خطاب ہو گیا۔ حکومت کے اہم وزیر شبلی فراز اور معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ نتیجہ صفر ہوگا۔ اپوزیشن کا مقصد کرپشن کیسز بند کرانا، اپنے جج لگوانا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ پاکستان گرے لسٹ ہی میں رہے اور پاپڑ فالودے والوں کے نام سے اکائونٹ بنتے رہیں۔ خدا خدا کرکے اے پی سی ہو گئی کئی مرتبہ تاریخ بدلی آخری دن مقام بدلا گیا۔ اس اے پی سی میں وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد تشکیل دیا جائے گا۔ دسمبر میں جلسے اور مظاہرے ہوں گے، جنوری میں لانگ مارچ ہوگا اور حکومت کو ختم کیا جائے گا۔ فیصلے پر کتنا عملدرآمد ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی رسی مزید کس قدر کھینچی جائے گی اور وہ کس قدر سخت جاں ثابت ہوں گے۔ یہ وقت بتائے گا۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا خطاب ہو گیا۔ انہیں حکومت سزا یافتہ اور مجرم کہتی ہے۔ یہ خطاب کیوں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کا سبب نواز شریف نے اپنے خطاب میں بتا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ان کو لانے والوں سے ہے۔ یہ گویا فوج کو براہ راست چیلنج دے دیا گیا ہے۔ اب حکومت کیا کرے گی اس کا ردعمل کیا ہوگا کیونکہ وزیراعظم عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ فوج میرے ساتھ ہے۔ فوج حکومت کے پیچھے ہے۔ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ اب میاں نواز شریف نے بہت واضح بات کہی ہے تو یقیناً عمران خان نہیں ان کو لانے والے ہی نواز شریف کا حال پوچھیں گے۔ جہاں تک اے پی سی سے حکومت گرنے کا تعلق ہے تو ایسا ہونا محال ہے خواہ فوج حکومت کی پشت پر ہو یا نہ ہو۔ اے پی سی میں ملک کے نظام، معیشت، امن ومان اور طرز حکمرانی کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے کسی کو اختلاف نہیں۔ مہنگائی میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ موجودہ حکومت نے دو سال میں اتنے قرضے لے لیے جتنے نوازحکومت نے پانچ سال میں بھی نہیں لیے۔ آٹا چینی، تیل وغیرہ کا معاملہ بھی خراب ہے اور درست نشاندہی کی گئی ہے۔ امن وامان کی خرابی، لاہور موٹر وے جیسے واقعات میں اضافہ اور حکومت کا عضو معطل بن جانا بلکہ اپنے ہی افسران کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہو جانا آئی ایم ایف کی غلامی، عالمی اداروں کے احکامات ماننا یہ سب باتیں درست سو فیصد درست ہیں۔ ایسے کام کرنے والی حکومت کو گرا دینا چاہیے لیکن اس اے پی سی سے ایک روز قبل امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے جو بات کہی ہے اور اے پی سی میں شرکت سے انکار کیا ہے وہ اے پی سی میں بولے جانے والی تمام سچی باتوں پر بھارتی ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملک کی تباہی کے ذمے داروں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ ان ہی لوگوں نے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر عمران خان کو حکمران بنایا گیا۔ عمران خان تو اے پی سی بلانے والوں کے وارث ہیں۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو کوئی اپوزیشن لیڈر بتا دے کہ ہمارے دور میں حکومت آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئی۔ عالمی بینک کے احکامات نہیں مانے۔ مہنگائی نہیں بڑھی۔ بے روزگاری میں کس دور میں کمی ہوئی ہے۔ رشوت، اقربا پروری، کرپشن کے بادشاہ سابقہ حکومتوں میں بھی تھے اور جب پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو اس میں جا گھسے۔ آج پھر وہ حکومتوں میں ہیں۔ اے پی سی والے بتائیں کہ شیخ رشید کس کے آدمی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کس کے ہیں۔ فواد چودھری، فردوس عاشق اعوان، ڈاکٹر بابر اعوان، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، خسرو بختیار، عمر ایوب سمیت درجنوں لوگ پی پی اور مسلم لیگ یا ایم کیو ایم کے ہیں جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ یہی لوگ کل پی ٹی آئی حکومت گرنے کی صورت میں واپس نئی حکومت میں یا اپنی پرانی پارٹی میں آجائیں گے۔ اپوزیشن نے آل پارٹیز کانفرنس کر لی۔ روایتی مطالبات اور اعلانات بھی ہو گئے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں۔جنوری سے ملک گیر تحریک چلے گی۔ لیکن حکومت اس سے بھی نہیں گرے گی۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ بہت سے لوگوں کو پھر بھی حکومت نہیں ملے گی۔ حکومت اور اپوزیشن ایک بات پر متفق ہیں کہ حکومت کی پشت پناہی فوج کر رہی ہے تو پھر اپوزیشن خود فیصلہ کر لے کہ اس کے مطالبات منظور ہوں گے یا نہیں۔ میاں نواز شریف نے اور آصف زرداری صاحب نے جو کچھ فرمایا وہ بجا اور حقیقت ہے لیکن کیا حقیقت نہیں کہ میاں نواز شریف کی حکومت کے دور میں مہنگائی بڑھی تھی۔ پیٹرول کے نرخوں میں غیر منصفانہ اضافہ کیا گیا۔ عوام پر غیر ضروری ٹیکسز مسلط کیے گئے۔ ان کی حکومت بھی آمریت کی مثال تھی۔ آصف زرداری کہتے ہیں کہ حقیقی جمہوریت نافذ کریں گے۔ میاں نواز شریف کو تین مرتبہ اور پیپلز پارٹی کو چار مرتبہ موقع ملا حقیقی جمہوریت کیوں نافذ نہیں ہوئی۔ قوم کی رائے پر ڈاکا ڈالنے پر آج اعتراض ہے لیکن کیاں میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی صرف عوامی حمایت سے اقتدار میں آتے رہے ہیں۔ اگر عمران خان کے سلیکٹڈ ہونے پر سب متفق ہیں تو کوئی اس امر سے انکار کر دے کہ وہ سلیکٹڈ نہیں تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے اہم وزیر شیخ رشید تو ہمیشہ سے تمام سیاست دانوں کو فوجی گملے کی پنیری قرار دیتے رہے ہیں اور کوئی اس کا انکار نہیں کرتا۔ تو پھر اپوزیشن اور حکومت ایک ہی گملے کی پنیری ہیں۔ جو پی ٹی آئی کر رہی ہے وہی یہ اپوزیشن کرے گی۔ جو کچھ یہ پہلے کرتے رہے ہیں ابھی تو اس کا حساب نہیں دیا گیا۔ حکومت نے بھی دو خاندانوں کو نشانہ بنایا ہوا ہے باقی 436 لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی ان میں سے بہت سے حکومتی صفوں میں گھسے ہوئے ہیں۔ تو پھر احتساب کس کا ہو رہا ہے۔ عمران حکومت کے اہم ترین آدمی جہانگیر ترین بیمار ہیں اور ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے۔ لیکن نواز شریف کی بیماری پر سب کو اعتراض ہے۔ بیماریاں دونوں یکساں ہیں سب جانتے ہیں۔