فرانس کے دارالحکومت پیرس میں مسلمان خاتون کے اجلاس میں حجاب پہننے پر دائیں بازو اور ری پبلکن اراکین پارلیمنٹ احتجاجاً واک آؤٹ کرگئے۔
پیرس میں نوجوان نسل میں کورونا وائرس کے اثرات کے حوالے سے اجلاس جاری تھا جس میں برسر اقتدار پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اینے کرسٹائن اور دائیں بازو کی دیگر جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ احتجاجاً باہر چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹوڈنٹس یونین کی نمائندہ مریم نے اجلاس میں حجاب پہن کر کیوں شرکت کی۔
اپنے ٹوئٹر پیغام میں اینے کرسٹائن نے کہا کہ انہیں یہ بات بالکل اچھی نہیں لگی کہ نیشنل اسمبلی کے اجلاس میں کوئی مسلم خاتون حجاب پہن کر شریک ہو۔
انہوں نے کہا کہ ایک خاتون رکن ہونے اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے کیلیے وہ پارلیمنٹ کی رکن بنی ہیں وہ عوامی جذبات اور سیکولر نظریات کو بالکل نظر انداز نہیں کر سکتیں۔
اجلاس کی صدر رکن پارلیمنٹ سینڈرائن مورچ نے اینے کرسٹائن کے فیصلے کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ فرانس کے قانون کے مطابق سرکای اجلاسوں میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق شرکت کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کسی کو بھی حجاب پر جعلی بحث کرنے کی اجازت نہیں دیں گی کیونکہ کورونا وائرس کے حوالے سے یہ ایک اہم اجلاس ہے۔
دوسری جانب دائیں بازو کی تنظیم کی جانب سے اجلاس کےبائیکاٹ پر فرانس کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ فرانس میں مذہبی آزادی ہے اور ہر شخص کو اپنے مذہبی عقائد پر عمل درآمد کرنے کی کھلی آزادی ہے۔