سانحہ موٹر وے کے اصل ذمے داران

288

موٹر وے کا جو اندوہناک سانحہ ہوا ہے اس نے پوری دنیا کے درد دل رکھنے والے انسانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس موقع پر اگر ہم سورہ والتین کا مطالعہ کریں تو اس میں اللہ تعالیٰ نے انجیر، زیتون، طور سینا اور پرامن شہر مکہ کی قسمیں کھا کر یہ کہا ہے کہ ہم نے انسانوں کو احسن تقویم یعنی اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے اور پھر انہیں پلٹ کر اسفل السافلین یعنی سب نیچوں سے نیچ کردیا سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں نیچوں سے نیچ کی جو تفسیر لکھی ہے وہ بڑی متاثر کن اور پڑھنے لائق ہے، مولانا لکھتے ہیں۔
’’ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کے بعد جب انسان اپنے جسم اور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی اور مخلوق گراوٹ میں اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں آتی ہیں۔ حرص، طمع، خود غرضی، شہوت پرستی، نشہ بازی، کمینہ پن، غیظ و غضب اور ایسی ہی دوسری خصلتوں میں جو لوگ غرق ہو جاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر صرف اسی ایک بات کو لے لیجیے کہ ایک قوم جب دوسری قوم کی دشمنی میں اندھی ہو جاتی ہے تو کس طرح درندگی میں تمام درندوں کو مات کردیتی ہے۔ درندہ تو صرف اپنی غذا کے لیے کسی جانور کا شکار کرتا ہے، جانوروں کا قتل عام نہیں کرتا۔ مگر انسا ن خود اپنے ہی ہم جنس انسانوں کا قتل عام کرتا ہے۔ درندہ صرف اپنے پنجوں اور دانتوں سے کام لیتا ہے۔ مگر یہ احسن تقویم پر پیدا ہونے والا انسان اپنی عقل سے کام لے کر توپ، بندوق، ٹینک، ہوائی جہاز، ایٹم بم، ہائیدروجن بم اور دوسرے بے شمار ہتھیار ایجاد کرتا ہے، تاکہ آن کی آن میں پوری پوری بستیوں کو تباہ کرکے رکھ دے۔ درندہ صرف زخمی یا ہلاک کرتا ہے۔ مگر انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اذیت دینے کے ایسے ایسے دردناک طریقے اختراع کرتا ہے جن کا تصور بھی کسی درندے کے دماغ میں نہیں آسکتا۔ پھر یہ اپنی دشمنی اور انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے کمینہ پن کی اس انتہا کو پہنچتا ہے کہ عورتوں کے ننگے جلوس نکالتا ہے، ایک عورت کو دس دس، بیس بیس آدمی اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، باپوں اور بھائیوں اور شوہروں کے سامنے ان کے گھر کی عورتوں کی عصمت لوٹتے ہیں، بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے قتل کرتے ہیں، مائوں کو اپنے بچوں کا خون پینے پر مجبور کرتے ہیں، انسانوں کو زندہ جلاتے اور زندہ دفن کرتے ہیں۔ دنیا میں وحشی سے وحشی جانوروںکی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس وحشت کا کسی درجے میں بھی مقابلہ کر سکتی ہو‘‘۔
درج بالا اقتباس کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسان جب انسانیت کا لبادہ اتار دیتا ہے تو موٹروے کا شرمناک واقعہ بھی پیش آتا ہے، زینب اور مروہ پھول جیسی بچیوں کی عصمت دری کے بعد ظالمانہ طریقے سے قتل کرنے کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کردیتی ہیں۔ اس موقع پر ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے سانحات کے ذمے داران کون کون لوگ ہیں۔
کسی دانشور کا قول ہے کہ تم مجھے اچھی مائیں دے دو میں تمہیں اچھی قوم دے دوں گا، ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ماں کی گود اس کی تربیت کا پہلا گہوارہ ہوتا ہے۔ ایک آدمی کو پھانسی کی سزا ہوئی اس کی ماں جب اس سے آخری ملاقات کے لیے آئی تو اس نے اپنی ماں کے ہاتھ میں زور سے کاٹ لیا، ماں بلبلا اٹھی اور اس سے پوچھا تو نے کیوں کاٹا بیٹے نے جواب دیا جب میں بچپن میں اپنے پڑوس سے مرغی کے انڈے چرا کر لایا تھا تو اگر اس وقت مجھے اس چوری سے منع کرتی اور وہ انڈے واپس کرواتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے عابد اور شفقت یہ دو اشخاص کے نام نہیں ہیں بلکہ یہ گھروں کی غلط تربیت کی روایات کا تسلسل ہیں۔ بچوں کو پہلی تربیت اپنی ماں سے ملتی ہے اور بچپن کی یاد کرائی ہوئی چیزیں آدمی کو ساری زندگی یاد رہتی ہیں۔ ہماری والدہ نے ہم بہن بھائیوں کو آیت الکرسی یاد کروائی تھی وہ خود بھی روزآنہ رات کو سونے سے پہلے تین بار آیت الکرسی پڑھ کر تین بار تالی بجاتی تھیں بچپن میں ہم چونکہ جھگی نما گھروں میں رہتے تھے مجموعی طور سے دینی ماحول تھا اس لیے اکثر رات کو پڑوس کے گھروں سے بھی تالیوں کی آواز آتی تھیں، ان تالیوں کے بارے میں ان کا کہنا یہ تھا کہ جتنی دور تک تالیوں کی آواز جاتی ہے اتنے حصے تک کوئی چور یا ڈاکو داخل نہیں ہو سکتا چنانچہ ہم بھی کوشش کرتے تھے بہت زور سے تالی بجائیں، جب قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے نبیؐ نے رات کو سونے سے پہلے آیت الکرسی چاروں قل پڑھنے کی ہدایت کی ہے وہاںتالی وغیرہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بات تھوڑی دوسری طرف نکل گئی ہم اس موضوع پر بات کررہے تھے کہ ہمارے معاشرے میں برائیوں کے اسباب و وجوہ کیا ہیں اور نوجوانوں کے بگاڑ میں کون کون لوگ اس کے ذمے دار ہیں، تو پہلی ذمے داری تو گھر کے ماحول کی ہے ماں اپنے بچے کو پہلے اللہ کہنا سکھاتی ہے پھر محمد کہنا سکھاتی ہے پھر کلمہ سکھاتی ہے ایک ماں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو سواری کی دعا، سوتے اور اٹھتے وقت کی دعائیں یاد کروادیں۔ ماں کے بعد باپ کے اوپر تربیت کی ذمے داری آتی ہے بعض گھروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں کے منہ سے گالیاں اچھی لگتی ہیں، اس لیے ہم ان کو ٹوکتے نہیں ہیں کہ بیٹا یہ بری بات ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آگے چل کر اپنے والدین کو گالیاں بکتا ہے، بچوں کی تربیت کا تیسرا ادارہ وہ محلہ اور دوست احباب ہوتے ہیں جن کے ساتھ وہ دن کا اچھا خاصا وقت گزارتا ہے اگر محلے پڑوس کے لوگ اچھے ہوں اور اس بچے دوست احباب بھی باد ب اور تمیزدار ہوں تو ٹھیک ہے ورنہ یہ بھی والدین کی ذمے داری
ہے کہ وہ اپنے بچوں دوست احباب پر نظر رکھیں غلط قسم کے بچوں سے اپنے بچے کو حکمت کے ساتھ علٰیحدہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد تربیت کا ایک ادارہ اسکول ہے جہاں بچہ پڑھنے جاتا ہے اسکول میں پڑھائی کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی انتظام ہونا چاہیے آج کل اسکول تو تجارتی مراکز بن گئے ہیں بعض اسکولوں کی چین ایسی بھی ہے جس میں بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اسکول کے بعد کالجز بھی اسی زمرے میں آتے ہیں کالجز میں طلبہ کی یونینیں ہوتی تھیں تو سالانہ اسٹوڈنٹس ویک میں تربیتی و تعلیمی پروگرام تشکیل دیتے تھے۔ خرابی کی ایک ذمے دار سیاسی و سماجی تنظیمیں بھی ہیں ہمارے ملک میں ایم کیو ایم جیسی سیاسی تنظیموں نے طلبہ اور نوجوانوں کے ہاتھ سے کتابیں لے کر کلاشنکوف پکڑا دی اچھے اچھے گھرانوں کے نوجوانوں کو اس تنظیم نے قاتل اور ڈکیت بنا دیا۔
دیگر سیاسی جماعتیں بھی کسی نہ کسی درجے میں اس کی ذمے دار ہیں بہ حیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ہم سب معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے ذمے دار ہیں کہ ہم پاکستان کو 73 سال میں اسلامی مملکت نہ بنا سکے اگر آج ہمارے یہاں اسلامی قوانین نافذ ہوتے اور مجرموں کو بروقت سزائیں دے رہے ہوتے تو یہ اندوہناک واقعہ رونما نہ ہوتا۔