چٹان کلمہ پڑھنے لگی

467

ہماری یونٹ کے خطیب صاحب ہر اتوار کی صبح جوانوں کے ایسے سوالات کے جوابات دیاکرتے تھے جن کا تعلق مذہب سے ہوتا۔ ایک جوان نے ایک حدیث مبارکہ سنائی اور سوال کیا کہ اس حدیث مبارکہ کی رو سے جب دو مسلمان آپس میں لڑتے ہیں تو مرنے اور مارنے والا دونوں ہی جہنمی ہوتے ہیں۔ خطیب صاحب نے کہا کہ یہ مشکوہٰ شریف کی حدیث ہے اور کسی بھی عالم کو اس سے اختلاف نہیں جوان نے استفسار کیا کہ اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں سیدنا حسین کی شہادت کے بارے میں تفصیل سے بتائیے۔ خطیب صاحب نے کہا کہ سیدنا حسین نے جنگ سے قبل تین شرائط پیش کی تھیں۔
۱: مجھے واپس جانے دیا جائے۔
۲: مجھے جہاد کے لیے بھیجا جائے۔
۳: مجھے یزید سے ملنے دیا جائے۔
مگر ان کی شرائط نہیں مانی گئیں یوں ان کی شرائط ہی ان کی شہادت کا سبب بن گئیں۔
ٹی وی چینل پر تمام علما کرام نے سیدنا حسینؓ کی شہادت کو عشق کی فتح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر سیدنا حسینؓ عقل کی بات مانتے تو اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے۔ مگر انہوں نے عشق کی بات مانی اور گنتی کے چند افراد کے ساتھ یزید کی بائیس ہزار فوج سے جنگ کی اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوکر اسلام کو تا قیامت زندہ کرگئے۔ خطیب صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ صاحب ایمان اللہ کی مرضی پر راضی رہتا ہے۔ وہ کوئی بھی بات بے دھڑک نہیں کرتا۔
ریاست رام پور بھارت سے ایک شخص ون یونٹ کالونی بہاولپور اپنے کسی عزیز سے ملنے آیا اسے معلوم ہوا کہ مولانا صاحب بھی رام پور ہی کے ہیں اور ڈی آر رینجرز میں خطیب ہیں وہ شخص ملنے آیا تو کئی جوانوں نے بھی اس سے ملاقات کی ایک جوان نے سوال کیا سنا ہے خطیب صاحب مناظرے وغیرہ بھی کیا کرتے تھے تو اس کے بتایا کہ اس نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ مولویوں نے کالر والی قمیص اور پینٹ پہننے والوں کے بارے میں فتویٰ دیا جو جس قوم سے مشابہ ہوگا روز قیامت اس کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ تو مولانا صاحب نے پینٹ اور کالر والی قمیص پہننا شروع کردیں۔ اور فتویٰ کے جواب میں کہا کہ رسول پاک نے برجس دیکھ کر کہا تھا کہ گھڑ سواروں کے لیے اچھا لباس ہے اور پھر خود بھی استعمال کی تھی۔ سو، لباس کی مشابہت مذہب پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ لائوڈ اسپیکر کا مسجد میں استعمال پر بھی مولویوں کو اعتراض تھا۔ مگر ہمارے مولوی صاحب نے ایک مناظرے میں یہ کہہ کر مولوں کے منہ بند کردیے تھے کہ مسجد میں گنبد کی تعمیر کا مقصد آواز کو بلند کرنا ہوتا ہے اور لائوڈ اسپیکر کا مقصد بھی آواز کو بلند کرنا ہے۔ تاکہ امام کی آواز تمام نمازیوں تک پہنچے دونوں کا مقصد ہی ایک ہے تو لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر اپنی رائے دینا بے معنی اورکج بحثی ہے۔ خطیب صاحب سے ملاقات کے لیے آنے والے ایک شخص نے بتایا کہ خطیب صاحب طالب علم تھے تو ان کے ساتھ تعلیم کے حصول کے لیے آنے والے طالب علم نے بتایا تھا کہ ایک بار کسی پادری نے کہا کہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ حجر اور شجر بھی اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلم عالم کسی شجر یا حجر سے کلمہ پڑھوا دے تو وہ مسلمان ہو جائے گا۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو ایسی لغو باتوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ اس کا دعویٰ ہم طالب علموں نے بھی سنا مگر اپنی بے بسی پر افسوس کرکے خاموش رہے۔ اسی اثنا میں ایک مجذوب آگے بڑھا اور کہا کہ بتائو! کس درخت یا کس چٹان سے کلمہ پڑھوائوں۔ پادری نے ایک چٹان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس سے کہو کلمہ پڑھے مجذوب نے چٹان سے کہا کلمہ پڑھو ۔ چٹان نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا۔ سننے والے حیران رہ گئے اور یہ حیرانی مزید بڑھ گئی جب پادری کو غائب پایا۔ سوچا مجذوب سے پوچھا جائے کہ کرشمہ کیسے رونما ہوا تھا۔ مگر مجذوب بھی نہ ملا کئی روز کی بھاگ دوڑ کے بعد ہم مجذوب کے پاس پہنچے۔ ہمیں دیکھ کر مجذوب نے کہا آخر تم نے ڈھونڈ ہی لیا کیسے نہ دھونڈتے تمہارا کارنامہ عقل سے بعید ہے۔ مجذوب نے کہا یہ ریاضت کا کمال ہے اچھا یہی بتا دو چٹان نے کلمہ کیسے پڑھا۔ مجذوب نے کہا کلمہ میں نے پڑھا تھا آواز چٹان سے آ رہی تھی اور یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی بہتر ہے جا کر تعلیم حاصل کرو۔