کیا ہے کس نے اشارہ

437

پاکستان میں ایک نو زائیدہ بچے سے لیکر حاکم اعلیٰ تک، کوئی فرد بھی خود مختار نہیں ہے۔ قانون کی کتابیں ہوں، کہنہ روایتیں ہوں یا رسم و روج کی باتیں، ساری کی ساری آئینے کے سامنے کھڑی کٹھ پتلیوں، گھڑی گھڑائی کہانیوں اور بوسیدہ دستاویزات سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں، اصل مورتیں اور دستاویزات صرف اور صرف وہ ہیں جو آئینے کے پیچھے چھپی ہوا کرتی ہیں۔ ایک عام شہری کی بات ہی الگ ہے۔ وہ اپنی ذات میں خود ہی تماشا اور خود ہی تماش بین ہے۔ لیکن جن کو یہ غریب عام آدمی بہت بڑا سمجھ رہا ہوتا ہے وہ دہی کا ’’بڑا‘‘ تو ہو سکتا ہے ورنہ حقیقت میں اس عام آدمی سے بھی زیادہ چوہا ہوتا ہے جس کو ایک عام آدمی شیر سمجھ کر اس کے چرنوں میں سر رکھ کر یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اوپر والے کے بعد اگر میرا کوئی پالن ہار ہے تو یہی ہے۔ پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو اس بات میں آج تک دو رائے پائی ہی نہیں جاتیں کہ ہمارے حکمران کبھی آئے نہیں لائے جاتے رہے ہیں اور اگر وہ عوامی طاقت کے سہارے اقتدار کی کرسی تک پہنچ بھی گئے ہیں تو نادیدہ حکمران یا تو ’’سر آئینہ‘‘ والوں کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کرتے رہے ہیں یا پھر ایسے حالات بنانے دیے گئے ہیں کہ ان کو کرسی چھوڑ دینے پر مجبور ہونا پڑجائے خواہ اس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہی کیوں نہ ہو جائے۔
پاکستان میں حکمرانوں کے خلاف، خواہ وہ سیاسی ہوں یا خلائی، اچانک اتحاد وجود میں آتے رہنے کی روایت اتنی پرانی ہو چکی ہے کہ عوام کے لیے ایسا ہو جانا، چونکا دینے والا عمل رہا ہی نہیں۔ یہ عمل اس لیے بھی حیران کن نہیں رہا ہے کہ ایسے سارے اتحاد نہایت عارضی رہے اور ان اتحادوں کا مقصد ہمیشہ اپنے دور کے حکمرانوں کو اقتدار سے ہٹا دینے یا اتحاد بنانے والوں کے مقاصد حاصل کرنے سے زیادہ کبھی نہیں رہا۔ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف کے دور تک جتنے اتحاد وجود میں آئے، حکمرانوں کے اقتدار سے محروم ہوتے ہی ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرتے دیکھے جانا اس بات کا بین ثبوت ہے ان کے پس پشت کچھ ایسی طاقتیں موجود رہتی ہیں جو شیروں اور بکریوں کو ایک کھاٹ پر پانی پینے پر مجبور کر دیتی ہیں اور جونہی ان کو اپنے اہداف حاصل ہو جاتے ہیں، ان کے پٹے پھر سے کھول کر انہیں ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے پر لگا دیا جاتا ہے۔
ماضی قریب میں پی پی حکومت کے خلاف قادری صاحب کی دارالحکومت تک پہنچ کوئی آسمانی معجزہ تو نہیں رہی ہوگی۔ نواز شریف کے خلاف عمران خان اور قادری صاحب کا کفن پوش حملہ، وزیر اعظم ہاؤس، ریڈیو پاکستان، سرکاری عمارتوں اور پارلیمنٹ پر قبضے جیسے سنگین اقدامات کیا بغیر کسی اشارہ ابرو ممکن ہو سکتے تھے۔ سمندر کے طوفان کی طرح اٹھ کر جھاگ کی طرح بیٹھ جانے کے پیچھے کوئی راز نہیں رہا ہوگا۔ موجودہ حکومت کا وہ کون سا قدم ہے جو اس کے وعدوں اور دعوں کا ترجمان ہو۔ بحران در بحران کے باوجود اب تک اس کے خلاف کوئی لشکر تیار کیوں نہیں ہوسکا۔ فضل الرحمن کا خوفناک انداز میں اسلام آباد کا رخ کرکے سراسیمگی کے عالم میں فرار ہوجانا کیا بلا پشت پناہی رہا ہوگا۔ دو دن قبل ایک مرتبہ پھر ٹوٹے دل جڑتے دکھائی دینے لگے ہیں، ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا دعویٰ کرنے اور پیٹ پھاڑ کر دولت نکالنے والے شیر شکر ہو کر بیٹھے دیکھے گئے ہیں۔ عدالتوں کے سزا یافتاؤں کو کئی کئی گھنٹے پاکستان کے تمام چینلوں پر براہ راست تقریروں کی اجازت دی گئی ہے۔ کیا یہ سب وحی الٰہی کے تحت ہوا ہوگا۔ سوال فقط اتنا ہے کہ ایک ناکام حکومت کے خلاف جس کی نااہلی نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، اس قسم کے اقدامات بہت پہلے کیونکر ممکن نہ ہو سکے، کوئی اتحاد وجود میں کیوں نہ لایا جا سکا اور طاقتور سے طاقتور حکومت کو توڑ کر مارشل لا نافذ کرنے والے تماشائی بنے کیوں دکھائی دیے۔نواز شریف کا ملک سے باہر جانا، عوام سے خطاب کرنے کی اجازت ملنا، حکومت کی فوجی قیادت سے ملاقاتیں، فوجی قیادت کی سیاست سے دست برداری کے اعلان جیسے اقدامات، اس بات کے غماز ہیں کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت، دونوں اپنی اپنی ہستی اور اپنے اپنے دائرہ عمل کے قانونی اختیارات رکھنے کے باوجود ان پر عمل در آمد کرنے میں مکمل آزاد و خود مختار نہیں۔ دنیا کے کئی حکمرانوں، مالیاتی اداروں اور طاقتور حکومتوں کے ان پر بہت زیادہ اثرات اور دباؤ ہیں جس کی وجہ سے سب کے سب مڑ مڑ کر ان کی جانب دیکھنے اور احکامات پر عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ نیا اتحاد، سیاست میں عدم مداخلت کا اعلان اور حکمرانوں کی پریشانیاں اس بات کا اظہار ہے کہ جس جس کو جہاں جہاں سے جو جو اشارے مل رہے ہیں، پاکستان کے سیاسی افق پر اس کی سرخیاں پڑھی جا سکتی ہیں۔
سیاست کی اکھاڑ پچھاڑ کے اس کھیل میں ایک ایک پاکستانی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دنیا کی انگلیوں پر ہم جتنا ناچتے جائیں گے، نچاتی رہے گی۔ اگر دنیا میں سر اٹھا کر جینا ہے تو دنیا سے بغاوت کرنا ہوگی اور بغاوت وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں ہر ادارہ اپنی اپنی کھونٹی کے بل پر اکڑے اور دوسروں کی حدود میں مداخلت کو جرمِ عظیم سمجھے۔ یاد رہے کہ گلے سے بچھڑی بھیڑ کو بھیڑیے اچک لیا کرتے ہیں۔