جمعہ 18ستمبر کو ایک چینل پر ملک معروف صحافی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ بھارت کی خفیہ تنظیم را الطاف حسین کو 4کروڑ روپے ماہانہ دے رہی ہے۔ دوسرا انکشاف انہوں نے یہ کیا کہ موجودہ متحدہ قومی مومنٹ کے تمام ذمے داران کا الطاف حسین سے رابطہ ہے انہوں نے مزید کہا کہ منی لانڈرنگ، ڈاکٹر عمران قتل کیس اور دیگر مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود را اور برطانوی حکومت نے الطاف حسین کو آرام سے رکھا ہوا ہے، کچھ تو مقاصد ہوں گے۔ الطاف گروپ کا پاکستان میں تو کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے بہت کوششیں کی گئی تھیں کہ کوئی سلسلہ بن جائے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ان کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا ہماری مقتدر قوتیں یہ جانتی ہیں کہ یہ ایک منتقم مزاج تنظیم ہے انہیں اگر ذرا سی بھی ڈھیل دی گئی اور قوت فراہم کی گئی تو جس طرح انہوں نے اپنے خلاف ہونے والے آپریشن میں ان پولیس اہلکاروں کو جو اس آپریشن میں حصہ لے رہے تھے، ایک ایک کرکے ٹھکانے لگا دیا تو اس دفعہ ان کا حدف پولیس والے نہ ہوں بلکہ رینجرز کے اہلکار اور دیگر قوتیں ہوں گی، بھارت بھی یہی چاہتا ہے کہ پاکستان میں ایسی تنظیموں کو دودھ پلا کر تیار کیا جائے جو فوج سے براہ راست ٹکر لیں اور ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ بلوچستان میں تو اس طرح کے کئی گروپ کام کررہے ہیں اس لیے کہ وہاں سی پیک کا بھی مسئلہ ہے اور یہ سی پیک بھارت کو کانٹوں کی طرح چبھ رہا ہے۔ خیبر پختون خوا میں ایک تنظیم تو باقاعدہ یہ نعرہ لگاتی ہے کہ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ اب بھارت کی کوشش ہے کہ کراچی میں بھی وہ حالات پیدا ہو جائیں جو 2016 سے پہلے کے تھے کہ جس میں پورا کراچی ایم کیو ایم کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا تھا۔
کراچی کے عوام آج کل بہت خوش ہیں کہ وہ اس خوف کے ماحول سے نکل آئے جو ان پر پچھلے 30سال سے مسلط تھا، لیکن دوسری طرف وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کے حق میں آواز اٹھانے والی تنظیم ایم کیو ایم بالکل ختم ہو جائے اس لیے کچھ لوگ اب بھی ایم کیو ایم کے حق میں ہیں حالانکہ کراچی کے نوجوانوں کی بہت بڑی اکثریت جماعت اسلامی کی طرف رجوع کررہی ہے، ایم کیو ایم اس قت 4حصوں میں منقسم ہے ایک ایم کیو ایم جو ڈاکٹر خالد مقبول کی قیادت میں کام کررہی ہے اور آبادی میں نچلی سطح تک ان کا نٹ ورک قائم ہے دوسری ایم کیو ایم جس کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ تو نہیں ہے لیکن کچھ لوگ ہیں جو ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں کام کرنا چاہتے ہیں تیسری ایم کیو ایم۔ دراصل پی ایس پی ہے اور چوتھی ایم کیو ایم الطاف گروپ ہے عوام میں اثر و رسوخ کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی کچھ اس طرح ہے کہ خالد مقبول کی قیادت میں کام کرنے والی ایم کیو ایم پہلے نمبر پر ہے دوسرے نمبر پر پی ایس پی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایم کیو ایم کی تقسیم ہوئی تو ووٹروں کی اور کارکنان کی اکثریت خالد مقبول صدیقی والی ایم کیو ایم میں چلی گئی لیکن ایم کیو ایم کے لیے انتخابی نتائج کو اس کے حق میں کرنے والے وہ کارکنان جو کلاشنکوف لے کر پولنگ اسٹیشن کو کنٹرول کرتے تھے ان کی اکثریت پی ایس پی میں گئی۔ وہ اپنی خوشی سے نہیں گئے اور نہ مصطفی کمال کی محبت میں گئے بلکہ اپنے اوپر قائم مقدمات میں ریلیف حاصل کرنے کی خاطر انہیں مجبوراً جانا پڑا ایک لحاظ سے ان کو پی ایس پی کے اندر دھکیلا گیا امید تھی کہ پچھلے قومی انتخاب میں پی ایس پی کو کچھ قومی و صوبائی کی نشستیں مل جائیں گی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور اب مصطفی کمال کی حیثیت ایم کیو ایم حقیقی کے آفاق احمد کی طرح کی ہو گئی ہے کہ بس روزآنہ ان کا ایک اخباری بیان شائع ہوجاتا ہے تاکہ یہ لوگ کم از کم اخبارات میں تو زندہ رہیں، مصطفی کمال کو جو قوتیں مختلف لارے لپے دے کر ایم کیو ایم کے خلاف میدان میں لے کر آئی تھیں وہ اس حوالے سے کیا سوچ رہی ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، آج کے اخبارات میں مصطفی کمال کا ایک بیان شائع ہوا ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخاب میں ڈاکٹر خالد مقبول کی ایم کیو ایم سے اتحاد ہو سکتا ہے۔
کراچی میں کچھ ڈائی ہارٹ قسم کے لوگ بھی ہیں جو اب بھی ایم کیو ایم لندن گروپ کو دل و جان سے چاہتے ہیں ایس لوگ نجی گفتگو میں اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں لیکن انجانے خوف کی وجہ سے کسی قسم کی تنظیمی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ایم کیو ایم الطاف گروپ کی تنظیمی سرگرمیاں لندن کی حد تک نظر آتی ہیں ہوسکتا ہے کچھ یورپی ممالک اور امریکا میں، عرب ممالک میں کچھ تنظیمی ڈھانچہ قائم ہو جہاں سے تنظیم کے لیے فنڈ ریزنگ ہوتی ہو۔ پاکستان میں الطاف گروپ کی کوشش ہوگی کہ آئندہ انتخابات میں خالد مقبول کی ایم کیو ایم ہو، فاروق ستار گروپ کے لوگ ہوں یا پی ایس پی کے جو بلدیاتی امیدوار ہوں، ان تینوں تنظیموں کا اگر اتحاد نہ بھی بن سکے تو کم ازکم سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جائے۔ ایک مشکل یہ ہوگی کے الطاف گروپ کھل کر کسی امیدوار کی حمایت کا اعلان نہیں کرسکے گا۔ کراچی میں آئندہ بلدیاتی انتخابات کے لیے ہر پارٹی یعنی ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اپنا میئر لانے کی کوشش کریں گی، ن لیگ کچھ نشستیں تو جیت سکتی ہے لیکن اتنی تعداد میں نہیں آسکتی کہ اپنا میئر لے آئے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی کراچی سے اپنا میئر لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح بلدیاتی انتخابات آگے بڑھ جائیں تا کہ صوبائی حکومت میں ہونے کی وجہ سے اپنے لگائے ہوئے ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے بلدیاتی اداروں اپنی حکمرانی قائم رکھیں اسی لیے انہوں نے مردم شماری کا بہانہ بنا کر الیکشن کمیشن میں بلدیاتی انتخاب کی تیاری کا کام رکوادیا ہے۔
را اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیاں ایم کیو ایم الطاف گروپ سے کیا کام لینا چاہتی ہیں یہ بات ابھی واضح نہیں ہے اس لیے ہمارے ایجنسیاں بھی چوکس ہیں اور وہ ان کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ جو ہم اکثر اخبار میں پڑھتے رہتے ہیں کہ آج فلاں ایم کیو ایم لندن گروپ کا دہشت گرد پکڑا گیا اس سے اسلحہ بھی برآمد ہوا ایسی خبریں یہ پتا دیتی ہیں کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں ہمہ وقت چوکس ہیں۔