سانحہ بلدیہ: فیصلے سے متاثرین کے کلیجے کٹ گئے

486

 سول اسپتال کراچی کا سرد خانہ لاشوں سے بھر چکا تھا، اسپتال کے باہر اسٹریچر پر بھی درجن سے زائد لاشیں موجود تھیں جو سفید چادروں سے ڈھکی ہوئی تھیں، اس وقت رات کے 2بج رہے تھے کہ ہوا کا ایک جھونکا آیا اور ایک لاش کے چہرے سے کپڑا ہٹ جاتا ہے، قریب موجود ایک خاتون کی نظر جیسے ہی اس پر پڑتی ہے تو ’’وہ میرا ایان‘‘ کہہ کر اس سے لپٹ جاتی ہیں۔ لیکن فوری دوسری آواز آئی اس کے کپڑے سرخ ہیں یہ میرا بیٹا ارشد ہے اور پھر یہ سلسلہ طویل ہوتا گیا اور صبح تک لاش کی شناخت نہ ہو سکی۔ 11 ستمبر 2012 کی رات قیامت کی رات تھی، ساری رات اور ہفتوں سارا دن لوگ اپنے پیاروں اور پیاریوں کو تلاش کرتے رہے۔ ایان، ارشد، عامر، فہیم، رشیدہ، عابدہ اور شہلا اور نہ جانے کس کس کے لاشے 259 مزدوروں کی لاشوں میں شامل تھے جو 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ میں واقع علی انٹرپرائزز فیکٹری میں آتشزدگی میں جھلسنے اور سانس گھنٹے سے ہلاک ہو گئے تھے، اس کے علاوہ درجنوں زخمی حالت میں فیکٹری کے باہر اور اسپتال کے اندر اور باہر پڑے تھے لیکن کوئی پُرسان حال تھانہ غم بانٹنے والے سرکاری نیم سرکاری ادارے کہیں نظر آئے۔ پھر اذان ِ سحر شروع ہوئی متاثرین اللہ سے فریاد کرنے لگے جس سے وہاں موجود ہر فرد چیخ چیخ کر رونے لگا اور شیطان دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔ جی ہاں یہ بھولا بھی وہاں موجود تھا اور لوگوں سے متاثرین کے لیے چندہ مانگ رہا تھا اور زور زور سے کہہ رہا تھا کہ فیکٹری مالکان نے انشورنس کی وصولی کے لیے فیکٹری جلائی ہے، یہ بھولا ایک ہفتے تک فیکٹری کے باہر کیمپ لگا کر شور بھی کرتا رہا کہ مالکان کو گرفتار کرو۔ جس کے بعد علی انٹرپرائزز فیکٹری کے مالکان کو گرفتار کر لیا گیا اور جب راز کھلا تو پتا چلا کہ چور مچائے شور کی طرح یہی بھولا تھا جس نے اپنے آقاؤں کی ہدایت پر فیکٹری میں آگ لگائی۔ اس کے بعد یہ بیرون ملک فرار ہوگیا۔
اب آٹھ سال بعد فیصلے سے متاثرین کی آنکھوں سے آنسوؤں کے ساتھ خون بھی ٹپکنے لگا۔ عدالت نے سانحے کی ذمے داری چریا اور بھولے پر ڈال کر پوری متحدہ، گورنر اور حکومت سند ھ سب کو بری کر دیا۔ جس دن یہ سانحہ ہوا اس وقت متحدہ کے رہنما ’’ڈاکٹر عشرت العباد خان‘‘ صوبے کے گورنر تھے۔ سندھ میں پی پی پی کی حکومت تھی اور یہ سب لوگ چریا اور بھولا کے سامنے بے بس و لاچار تھے۔ ان سے کوئی معلوم نہیں کرتا کہ آگ لگی لیکن بجھانے کی ذمے داری کسی کی تھی؟ بس دہشت گردوں کے سامنے سب مجبور و لاچار تھے یا ’’مصلحت کا جبر ایسا تھا کہ چپ رہے سب کے سب‘‘۔ پورے پاکستان کے چینل ساری رات اور پھر 12ستمبر 2012 کو سارا دن آگ سے مدد کے لیے پکارتے مرد وخواتین اور 14سے 15سال کے بچے اور بچیوں کی آواز سناتے رہے لیکن یہ آواز وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاؤس کے دروازے تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ گورنر اور حکومتی ارکان اندھے، بہرے اور گونگے تھے، عدالت کا احترام درست اور ٹھیک اور ہونا بھی ضروری ہے لیکن پولیس کی اس قدر بے معنی تفتیش سے صرف مجرموں کو فائدہ ہوا مظلوم کو کچھ نہیںمل سکا۔ اس فیصلے سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کسی نے ایک مرتبہ پھر متحدہ کو آکسیجن دینے کی منصوبہ بندی کر لی ہے اور اسی لیے یہ فیصلہ باربار ملتوی ہوتا رہا۔ فیصلے کی تاریخ پہلے 7 بعد میں 15پھر 23ستمبر دی گئی اور فیصلہ سنایا گیا۔
فیصلے کے بعد میں چند متاثرین سے ملنے چلا گیا۔ ان کو سکون نہیں تھا ایسا لگ رہا تھا کہ آج ہی یہ سانحہ ہوا ہے۔ متاثرین کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر اور دل دہلا دینے والی داستانیں تھیںہر طرف ایک ہی بات ہو رہی تھی 8سال بعد بھی ہاتھ خالی ہیں۔ ایک متاثرہ خاتون نے بتایا کہ 8برس سے گھر کا چولھا نہیں جلایا۔ اب عدالت نے کلیجے میں دوبارہ آگ لگا دی اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میرا بیٹا آج پھر مر گیا‘ سعیدہ بی بی نے بتایا کہ ان دنوں رمضان ختم ہو چکا تھا اور فیکٹری مالکان نے مزدوروں کو عید پر بھی تنخواہ نہیں دی تھی۔ سعیدہ بی بی نے6 برسوں سے کھانا نہ پکانے کی وجہ یہ بتائی کہ ان کا بیٹا ’’ایان‘‘ جیسے ہی دروازے میں داخل ہوتا پہلا سوال یہی کرتا کہ ’’امی کھانا بن گیا‘‘؟ پھر آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے بڑی مشکل سے آواز نکلی ’’اس روز میں نے سالن بنا لیا تھا جبکہ چاول چولہے پر تھے، اسی دوران میری والدہ داخل ہوئیں اور کہا کہ ٹی وی دیکھو ’’ایان‘‘ جس فیکٹری میں کام کرتا ہے اس میں آگ لگی ہے، ان کا اتنا بولنا تھا میں نے چولہا بند کیا اور علی انٹرپرائزز پہنچی۔ اس روز کے بعد میں نے کبھی چولہا نہیں جلایا بڑی کوشش کرتی ہوں کہ اکیلی ہوں کچھ بنا لوں باہر کا کھانا طبیعت خراب کرتا ہے لیکن ہمت اور طاقت نہیں ہوتی۔ ’’اعجاز عرف ایان‘‘ سعیدہ بی بی کی واحد اولاد تھی، ابھی وہ دو سال ہی کا تھا تو والد انتقال کر گئے، سعیدہ بی بی کے مطابق انہوں نے اسے بڑی مشکل سے پالا تھا۔
ہر متاثر کی ایک نئی آپ بیتی تھی لیکن جس پر بیتے وہی جانے کے مصداق کسی زخم کو ہاتھ لگاتا تھا تو اپنے آنسوؤں پر کنٹرول کرنے کا من نہیں کرتا تھا بس یہی سوچ رہا تھا ان کو اب دنیا میں تو انصاف ملنے کا نہیں۔ یہ من بیتی کسی ایک کی نہیں تھی جس متاثر کے زخم کو ہاتھ لگاؤ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہو جاتی تھی اور پھر کیا تھا ہر ایک کی من بیتی جگ بیتی بن چکی تھی ایک روتا تو سب رونے لگتے اور روتے ہی چلے جاتے۔ ہٹلر کی ساری رات بمباری کے بعد برطانوی وزیر ِ اعظم چرچل سے کسی نے سوال کیا لندن بچ جائے گا چرچل نے سوال کرنے والے سے سوال کیا کہ لندن کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں سوال کرنے والے نے جواب دیا جی! چرچل نے کہا کہ لندن بچے گا اور ہٹلر برباد ہو جائے اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک انصاف کے ایوانوں سے یہ آواز آتی رہے گی کہ عدم ثبوت کی بنیاد پر مجرم کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا گیا ہے۔ سانحہ بلدیہ فیصلے سے متاثرین کو انصاف نہیں مل سکا تو کہاں سے ملے گا۔